بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیش امام کا اپنے لیے صدقہ فطر وصول کرنا اور تراویح پر اجرت لینا


سوال

 ہمارا پیش امام آرمی پبلک اسکول میں ٹیچر ہے جو کہ مبلغ ۳۵۰۰۰ رویپے لیتا ہے۔ بیوی بھی اقراء سکول میں پڑھاتی ہے۔مسجد میں تنخواہ ۱۳۰۰۰ روپے ہے۔گھر کا کرایہ نہیں ہے تو اس صورت حال میں وہ سرسایہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ وہ مطالبہ کرتا ہے۔ دوسری عرض یہ ہے کہ رمضان میں ختم قرآن پر پیسے لینا کیسا ہے؟ دینے والا کہتا ہے کہ میں نے تعظیماً دیے ہیں۔ برائے مہربانی شرع کی رو سے جواب چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ شرعی اعتبار سے  صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق  وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)  تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات  اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ امام  مستحق ہے تو اس کو صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے۔اگر وہ زکوۃ کے نصاب کا مالک ہے تو اس کاصدقہ فطر مانگنااورلوگوں کا جان بوجھ کر اسے دینا ناجائز ہے، اس سے صدقہ فطر ادا نہیں ہو گا۔

 تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا۔ 

البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں  سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ ہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی ۔اسی طرح اگر تراویح پر اجرت مشروط بھی نہ ہو اور معروف بھی نہ ہو اور کوئی شخص امام کو ختم قرآن پر ذاتی طور پر ہدیہ دے دے تو جائز ہے۔

اور اگر تراویح سنانے والا اس مسجد کا ہی امام ہو اور انتظامیہ/کمیٹی رمضان المبارک میں الاؤنس یا اضافی مشاہرے کی صورت میں امام کا تعاون کردے تو یہ تراویح کی اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔

سامع کے لیے اجرت پرقرآنِ کریم سننا جائزنہیں ہےاورثواب بھی نہیں ہے۔ البتہ بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہوتویہ الگ    بات ہے  اور یہ  صورت حدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔

اگر دینے والا ذاتی طور پر ہدیہ کے طور پر دے تو اس کو لینے کی گنجائش ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومصرف هذه الصدقة ما هو ‌مصرف الزكاة كذا في الخلاصة"

(کتاب الصوم ، الباب الاول فی تعریفه و تقسیمه و سببه و وقته و  شرطه جلد ۱ ص : ۱۹۴ ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون"

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص : ۵۶ ط : دارالفکر)

فقط  و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں