میں اسائنمنٹ تحریر میں حلال و حرام کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔ درحقیقت، میں پچھلے 3 تین سالوں سے ایک کنٹینٹ رائٹر ہوں اور بنیادی طور پر میں جو کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجھے بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے طلبہ سے اسائنمنٹس ملتے ہیں، میں ان کے لیے تمام کام کرتا ہوں اور جب وہ اپنے اسائنمنٹس یا تھیسس کو اپنے نام کے ساتھ شائع کرتے ہیں تو مجھے تنخواہ ملتی ہے۔ یہ. حال ہی میں، میں نے ایک شیخ کی ویڈیو دیکھی جس نے کہا کہ یہ حرام ہے اور دھوکہ دہی سے متعلق ہے۔ اب، میں نے کیریئر کے اس راستے کو اپنی روٹی اور مکھن بنا لیا ہے اور یہ واحد ذریعہ ہے جس پر میں ابھی انحصار کر رہا ہوں۔ لہذا، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ حلال ہے یا حرام تاکہ میں جلد از جلد اس کیریئر کو تبدیل کر سکوں اگر یہ حرام ہے۔ آپ کے حوالہ کے لیے، میں اس ویڈیو کا لنک بھی منسلک کر رہا ہوں جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
طلبہ کا اجرت دے کر اسائنمنٹ ، اور تھیسز( مقالہ جات ) تحریر کراناجسے وہ طالب علم بذات خودسر انجام دینے کا پابند ہے اور جس کی بنیاد پر اس کی صلاحیت کا امتحان اور اس کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے نام سے وہ اسائنمنٹ جمع کراکر مستقبل میں سند حاصل کرسکے، جھوٹ اور دھوکا دہی میں شامل ہے ،اور آپ کا ایسے طلبہ کے لیے اسائنمنٹ وغیرہ تحریر کرکے دینااور اس پر اجرت لینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں ،نیز اس طرح کے کام کرنے سے معاشرہ میں تعلیم کا فقدان ہوگا،محنت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی،اور بعد میں یہی نا اہل لوگ قسم پر مسلط ہوں گے۔لہذاایسے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب کریں اور اس کے بدلہ کوئی اور حلال پاکیزہ ذریعہ رزق تلاش کریں۔
الموافقات للشاطبى میں ہے۔
"أن فعل المباح سبب في مضار كثيرة:- ومنها: أنه سبب في الاشتغال عن الواجبات، ووسيلة إِلى الممنوعات؛......... والثانی : أنا إِذا نظرنا إِلى كونه وسيلة؛ فليس تركه أفضل بإِطلاق, بل هو ثلاثة أقسام:قسم يكون ذريعةإلى منهي عنه؛ فيكون من تلك الجهة مطوب الترك."
)کتاب الاحکام،ج1،ص176،ط:دار ابن عفان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101657
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن