بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

5 فیصد یا 7 فیصد کے حساب سے نفع طے کرنے کا حکم


سوال

 کیا 5پرسنٹ  (فیصد) یا7پرسنٹ (فیصد) یہ سود   میں شمار نہیں ہوتا ؟

جواب

آپ کا سوال واضح نہیں ہے، یعنی انویسٹمنٹ کا پانچ یا سات فیصد یا نفع کا پانچ یا سات فیصد؟ 

  اصولی جواب یہ  ہے کہ اگر شراکت یا مضاربت وغیرہ کے معاملہ میں نفع سرمائے کے  فیصد کے مطابق  طے کیا جائے تو یہ سود کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لیکن اگر کاروبار میں سے حاصل ہونے والے منافع کا فیصد طے کیا جائے کہ  مثلًا  اتنا فیصد ایک شریک کا ہوگا اور اتنا فیصد دوسرے شریک کا ہوگا تو یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا اور اس طرح نفع کا تناسب طے کرنا  جائز، بلکہ لازم ہے۔

مشترکہ  کاروبار  میں ہر شریک کا نفع میں سے  حصہ طے کرنا لازم ہے ،  جس کا طریقہ یہ  ہے کہ نفع  کی  تعیین حاصل شدہ نفع کے فیصدی تناسب سے  طے کی جائے گی،مثلاً  نفع  دونوں  کے  درمیان آدھا آدھا  ہوگا، یا کسی  ایک  فریق  کے  لیے  ساٹھ  فیصد  اور  دوسرے  کے  لیے چالیس فیصد یا دونوں  کے  سرمایہ  کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس  کے  لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔

اگر  دونوں شریک  ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب  اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً  یہ کہناکہ فلاں شریک کو  ہر  مہینے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا سرمائے (انویسمنٹ) کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: و تصح مع التساوي في المال دون الربح و عكسه) و هو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

و لنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144205201318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں