بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پینٹ شرٹ پہننے اور پہنانے کاحکم


سوال

پینٹ شرٹ پہننے کا کیاحکم ہے ؟ مردپہن سکتاہے یانہیں ؟ مرداگراپنی بیو ی اوربچوں کوپہناناچاہے توپہناسکتاہے یانہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ پینٹ اگر اتنی چست اورتنگ ہو جس سے جسم کےاعضائے مستورہ یااس کی ساخت اوربناوٹ ظاہر ہوتی ہو یا ٹخنہ سے نیچے لٹکا کر پہنا جائے،تو اس کو پہننے اوربچوں کوپہنانے کی شرعاً  اجازت نہیں ہے، البتہ ڈھیلی ڈھالی پینٹ شرٹ جب کہ  (مرد کے) ٹخنے کھلے رکھنے کا اہتمام کیا جائے تو  پہننےاوربچوں کوپہنانے کی گنجائش ہے، باقی مجبوری نہ ہو تو نیک لوگوں کا لباس پہنے۔

شوہرکی خواہش پر عورت اپنے گھر میں تنہائی میں یا شوہر کے سامنے پینٹ شرٹ پہنتی ہے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن دیگر محارم اور بچوں کے سامنے ایسا لباس پہننا جائز نہیں جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہو۔ اور اگر پینٹ شرٹ کُھلی/ ڈھیلی ہو جس سے جسم کی ساخت نمایاں نہ ہوتی ہو اور اس کا کپڑا بھی موٹا ہو  تب بھی خواتین کے لیے یہ لباس پسندیدہ نہیں ہوگا، خصوصًا جب کہ دیکھنے والوں کی  ترغیب یا اجنبی کی توجہ کا باعث ہو یا بچوں کی تربیت متاثر ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لايصف ما تحته) بأن لايرى منه لون البشرة احترازاً عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله: ولايضر التصاقه) أي بالألية مثلاً، (وقوله: وتشكله) من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظًا لايرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئياً فينبغي أن لايمنع جواز الصلاة؛ لحصول الستر. اهـ. قال ط: وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقاً أو حيث وجدت الشهوة؟ اهـ. قلت: سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر، والذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول". 

(كتاب الصلاة،باب شروط الصلاة،مطلب في سترة العورة،ج:1،ص:410،ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ.

وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من تأمل خلف امرأة ورأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة» ولأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظرا إلى ثيابها وقامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى خيمة هي فيها ومتى كان يصف يكون ناظرا إلى أعضائها اهـ. أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه، قال في المغرب يقال مسست الحبلى، فوجدت حجم الصبي في بطنها وأحجم الثدي على نحر الجارية إذا نهز، وحقيقته صار له حجم أي نتو وارتفاع ومنه قوله حتى يتبين حجم عظامها اهـ وعلى هذا لا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل".

(كتاب الخظروالإباحة،فصل في اللبس،ج:6،ص:366،ط: سعيد)

المسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"لا یجوز لبس الرقیق من الثیاب إذا کان یشف عن العورۃ فیعلم لون الجلد من بیاض أو حمرۃ، سواء في ذلك الرجل والمرأۃ ولو في بیتها … وهو بالإضافة إلی ذلك مخل بالمروءۃ ولمخالفته لزي السلف … أما ما کان رقیقًا یسترر العورۃ؛لكنه یصف حَجمَها حتی یری شکل العضو فإنه مکروہ، لقول جریر بن عبد اللّٰہ: إن الرجل لیلبس وهو عار یعني الثیاب الرقاق."

(الموسوعة الفقهیة،الألبسة،ج:6،ص:136،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية كويت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506100957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں