بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پنشنز بینفٹ اکاؤنٹ اسکیم میں اکاؤنٹ کھولنے کا حکم


سوال

 قومی بچت مراکز پنشنرز کو ( Pensioner Benefit Accounts) میں رقم جمع کروانے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس اکاونٹ کی شرح منافع دوسرے اکاؤنٹس سے زیادہ بھی ہے۔ مثلاً ایک لاکھ پر ایک ہزار ماہوار۔ کیا اس اکاونٹ سے استفادہ کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سود ی لین دین کرنااز روئے شرع ناجائز و حرام ہے، سود کے بارے میں  قرآن و حدیث میں سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی لین دین کرنے والے شخص کے ساتھ   اللہ تعالیٰ اور اس   کے رسول کی طرف اعلانِ جنگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی کام کرنے والے شخص کو ملعون قرار دیا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا ذکر کردہ  (Pensioner Benefit Accounts) پنشنر بینفٹ اکاؤنٹ، قومی بچت اسکیوموں میں سے ایک سکیم ہے، جس کی بنیاد سودی لین دین پر ہے، اور چوں کہ سودی لین دین ناجائز وحرام اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے، اس لیے پنشز بینفٹ اسکیم میں اکاؤنٹ کھولنا اور اس کے منافع حاصل کرنابھی ناجائز و حرام ہے،ہر مسلمان کےلیے اس سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لاتظلمون ولاتظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون} (البقرة :۲۷۸ إلى۲۸٠)

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگے تو  تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔(بیان القرآن )

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".

(باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:3،ص:1219، ط: دار إحیاء التراث)

ترجمہ: "حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"

فتاوى شامي میں ہے:

"(وشرطها) أي شركة العقد (كون المعقود عليه قابلا للوكالة) فلا تصح في مباح كاحتطاب (وعدم ما يقطعها كشرط ‌دراهم ‌مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى(وحكمها الشركة في الربح)".

(كتاب الشركة، ج:4، ص:305، ط:سعيد)

البحر الرائق ميں ہے:

"أن يكون ‌الربح ‌بينهما شائعا كالنصف والثلث لا سهما معينا يقطع الشركة كمائة درهم أو مع النصف عشرة".

(كتاب المضاربة، ج:7، ص:264، ط:دار الكتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں