بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی پینشن اور گھرکے کرائے کی تقسیم


سوال

میرے والد کاانتقال ۲۰۰۹ میں ہوا،ہم ۳  بھائی اور ۳ بہن ہیں، والد کے انتقال کے بعد والد کی پینشن والدہ کو مل رہی ہےجو وہ اپنے استعمال میں لاتی ہے، گھر  والد صاحب کے نام ہے، ہم نے گھر کا نچلا حصہ بینک کو کرایہ  پر  دیا ہے، بینک کو کرایہ دینے کی وجہ سے ہم سب بھائی اور بہنوں نے مکان کی پیمنٹ کو والدہ کے نام کی، بینک اب ہر ماہ ۱۹۱۰۰۰ ہزار روپے کی کرایہ دیتا ہے، اب کرایہ والدہ کے نام آتا ہے، اور والدہ اس میں سے ۳۰۰۰۰ روپے ہر ایک بھائی کو دیتی ہے، اور ۲۰۰۰۰ روپے ہر ایک بیٹی کو دیتی ہے، بقایا رقم  اپنے استعمال میں لاتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہیں کہ:

1۔ کیا والدہ اپنی مرضی سے جس کو چاہےجتنی رقم دیں؟

2۔ یا والدہ شریعت کے مناسب سب کو حصہ دیں؟

3۔ یا والدہ اگر کسی کو کچھ بھی نہ دیں اور سب اپنے پاس رکھیں؟

اس سلسلے میں قرآن وسنت  میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تبارک وتعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

جواب

واضح رہے کہ  پینشن کی رقم  متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، اور ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ  میں  سائل کے مرحوم والد  کو   ملنے والی پینشن ان کے انتقال کے بعد مرحوم کی بیوہ  کو مل رہی ہے، وہ مرحوم کی بیوہ کی ملکیت ہے،یہ مرحوم کی وراثت میں تقسیم نہ ہو گی۔

البتہ  مرحوم کی  جائداد اور نقدی رقم  مرحوم  کے ورثاء کے درمیان  تقسیم کی جائیگی، صورت مسئولہ  میں  گھر کا نچلا  حصہ  جس کا  کرایہ سائل کی والدہ کے نام پہ آتا ہے وہ سب کہ درمیان شریعت کے مطابق  تقسیم ہوگا ، سائل کی الدہ  کا اپنی مرضی  کے مطابق تقسیم کرنا شرعا درست نہیں،بینک کو کرایہ پر دینا مکروہ تحریمی ہے۔

وفي المجلة :

"مادة 837  تنعقد  الهبة  بالإيجاب  والقبول  وتتم بالقبض."

 (ص: 162ط:كارخانه تجارت كتب)۔

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع و احسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے تقسیم کردے‘‘۔

(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

شرح المجلہ میں ہے:

’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم". 

(شرح المجلة للأتاسي، (4/14)، الْمَادَّةُ :1073، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں