بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پینشن کا حکم


سوال

ہم چار بھائی دو بہنیں ہیں، بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا، ان کی پہلی بیوی سے ایک لڑکی ہے اور دوسری بیوی بھی ہے جس سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ پہلے بیوی کا انتقال ہوگیا۔

میرے والد صاحب گورنمنٹ سروس میں تھے، ان کی پینشن آتی تھی، ان کے انتقال کے بعد والدہ کو ملتی تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد اب بڑی بہن جو بیوہ ہے اس کو ملتی ہے، والدہ کے انتقال کے دس سال بعد بہن کو ملنا شروع ہوئی، دس سال کے پیسے اکتیس لاکھ روے ملے اورر اب ہر مہینے چار ہزار آٹھ سو روپے ملیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اکتیس لاکھ میں ہم سب بہن بھائیوں کا حصہ ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا بنے گا؟

ہر مہینے جو چار ہزار آٹھ سو ملیں گے، ان میں حصہ ہے یا نہیں؟

وضاحت(1): والدہ کا انتقال 2012ء میں ہوا۔

وضاحت (2): بھائی کا انتقال 2021ء میں ہوا۔

وضاحت (3): ادارے نے اپنے اصول کے مطابق بیوہ بہن کے نام پر پینشن جاری کی۔

جواب

واضح رہے کہ ملازمین یا ان کی وفات کے بعد ان کے لواحقین کو ملنے والی پینشن کی رقم متعلقہ ادارے کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، اور جس کے نام پر وہ ادارہ پینشن کو جاری کرے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوہ بہن کو گزشتہ دس سالوں کی اکٹھی جو پینشن ملی ہے اور وہ پنشن جو ہر مہینے مل رہی ہے، وہ اس کی اکیلی مالک ہے۔ سائل اور اس کے دیگر بہن بھائیوں کا اس میں حصہ نہیں ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔

( کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ج: 4، ص: 343،   ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں