بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پنشن کے بدلے وراثت سے دستبرداری کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں ، میری پہلی والدہ کا انتقال 2013 میں ہوا ،پھر والد نے 2016 میں دوسری شادی کی ،2020 میں میرے والد کا انتقال ہوا ،اب میری دوسری والدہ ،ہم دو بھائی ،دو بہنیں ہیں ،(یعنی مرحوم کے دو بیٹۓ اور دو بیٹیاں ہیں ) مذکورہ بیٹے بیٹیاں  پہلی والدہ سے ہیں ،ہم نے دوسری والدہ سے ان کی شادی سے قبل یہ بات کی تھی ،کہ والد صا حب کا فلیٹ ہے اس میں سے آپ کو حصۃ نہیں ملے گا البتہ اس کے بدلہ  ہم آپ کو پینشن کے پیسے دیتے رہیں گے انہوں نے مان بھی لیا تھا ،فلیٹ کی موجودہ مالیت تقریباً ساٹھ  لاکھ ہے،اب جب والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تو وہ حصۃ مانگ رہی ہے حالانکہ ہم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ہم ان کو پینشن کے پیسے دے رہے ہیں دریافت یہ کرنا ہے کہ ہماری دوسری والدہ کا  فلیٹ میں شرعا حصہ بنتا ہے ؟میں نے والد صاحب کی تجہیز وتکفین پر پچاس ہزار روپے لگائے تھے تو کیا میں وہ رقم  فلیٹ کی رقم سے قبل از تقسیم وصول کرسکتا ہوں ؟نیز میں نے والد صاحب کے علاج و معالجہ پر کسی سے قرض لے کر ڈیڑھ لاکھ روپے لگائے تھے کیا وہ تقسیم سے پہلے لے سکتا ہوں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور بہن بھائیوں کا اپنی سوتیلی والدہ سے کیا گیا   مذکورہ معاہدہ درست نہیں تھا، اس لئے کہ پنشن انتقال کے بعد بیوہ ہی کے نام جاری ہوتی ہے، لہذا اس میں کسی اور وارث کا حق نہیں تھااور اس کے بدلے وراثت سے دست برداری بھی درست نہیں ہوئی، سائل کی سوتیلی والدہ اپنے مرحوم شوهر كے ترکہ کے مکان میں اپنے شرعي حصه كے بقدر حصہ دار ہیں اور ان کا اپنے حق کا مطالبہ درست ہے۔نیز سائل نے تجہیز و تکفین کے جو اخراجات اٹھائے وہ  تقسیم سے قبل وصول کرسکتا ہے،اور وه اخراجات جو بدعات يا رسم و رواج كے تحت كئے مثلا سوئم اور كهانا وغيره، تو يه اخراجات تركه ميں سے منها نهيں كئے جائيں گے۔ البتہ جو رقم سائل نے والد  کے علاج کے لئے بطور قرض لی تھی،وہ رقم تقسیم سے قبل نکال لی جائے گی۔

الدر المختار میں ہے:

"القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله)۔"

(الدر المختار علی الدر المختار،باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل فی القرض،161/5، سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك۔"

(الاشباہ والنظائر لابن نجیم،ا یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ، ص:272، دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں