پینشن بینیفٹ اکاؤنٹ جو کہ سرکاری ملازمین کا بنایا جاتا ہے ، اس سے حاصل ہونے والا منافع جائز ہے کہ ناجائز؟
پینشن بینیفٹ اکاؤنٹ میں چوں کہ ملازم کی تنخواہ کی رقم جمع ہوتی ہے جو کہ قرض ہےاور اس رقم پر اسے نفع ملتا ہے ، اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلواناجائز نہیں ہے۔ اب اگر ملازم نے یہ اکاؤنٹ خود کھلوایا ہے تو ملازم نے جس قدر رقم اس اکاؤنٹ میں جمع کروائی تھی اسی قدر رقم واپس لے سکتاہے ، اس رقم پر اضافی سود نہیں لے سکتا اور اگر ملازم نے یہ اکاؤنٹ خود نہیں کھلوایا،بلکہ ملازمت کے دوران سرکاری ادارے کے طرف سے کھولا گیا ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ملازم کی تنخواہ میں سے اس مد کی کٹوتی ملازم کی رضامندی سے ہوتی ہے، تب تو جس قدر رقم اس مد میں جمع ہوئی تھی، حساب لگا کر صرف اسی قدر رقم اس پنشن کی مد میں لینا ملازم کے لیے درست ہوگا، اس سے زیادہ نہیں، اور اگر کٹوتی جبری ہے، ملازم کی رضامندی اس میں شامل نہیں ہے، تب پینشن میں اضافی رقم لینا ملازم کے لیے جائز ہے، یہ اکاؤنٹ کھلوانے کا گناہ ادارے والوں کو ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے:
"لَعَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ الرِّبَا وَمُوَكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»."(مشكاة المصابيح ص 244، قديمي)
وفي الأشباه:
"كل قرض جر نفعًا فهو حرام."(5/ 166 ط:سعید)
وفي المجلة:
"مادة 837: تنعقد الهبة بالإيجاب و القبول و تتم بالقبض."
(ص: 162ط:كارخانه تجارت كتب)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207201431
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن