بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پینشن کا حق دار


سوال

ایک سرکاری ملازم کی پینشن میں کون کون حق دار ہوتا ہے؟ جب کہ وہ سرکاری ملازم خود اور اس کی بیوی اور بچے زندہ ہیں، نیز سرکاری ملازم کی والدہ اور بھائی بھی زندہ ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ پینشن  کی رقم  ادارے کی طرف سے عطیہ اور انعام ہوتی ہے، جب تک   ملازم زندہ ہوتا  ہے، پینشن کی رقم اس کے لیے ہدیہ اور انعام ہو تی ہے،  وفات کے بعد بعض اوقات مرنے والے کے نامزد کردہ شخص کو  بعض دفعہ   ادارے کی پالیسی کے مطابق  نامزد شخص کو  دی جاتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک مذکورہ سرکاری ملازم زندہ ہے، پینشن کی رقم ادارے کی طرف سے   اس کے لیے ہدیہ اور انعام ہوگی اور اسی کی  ملکیت ہوگی اور جس شخص کو  بھی یہ ملازم اپنی وفات کے بعد پینشن کی رقم کے لیے نامزد کرے گا، پھر  ادارہ اس کے نامزد کردہ شخص کو یا اپنے ضابطہ کے مطابق جس   شخص کے لیے بھی پینشن  جاری کرے گا وہی اس کا حق دار اور مالک ہوگا ۔

وفي المجلة :

"مادة 837  تنعقد  الهبة  بالإيجاب  والقبول  وتتم بالقبض."

 (ص: 162ط:كارخانه تجارت كتب)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع و احسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے تقسیم کردے‘‘۔

(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

’’احکامِ میت‘‘ میں ہے:

’’پینشن جب تک وصول نہ ہوجائے ملک میں داخل نہیں ہوتی، لہٰذا میت کی  پینشن کی جتنی رقم اس کی موت کے بعد وصول ہو وہ ترکہ میں شمار نہ ہوگی، کیوں کہ ترکہ وہ ہوتا ہے جو میت کی وفات کے وقت اس کی ملکیت  میں ہو، اور یہ رقم اس کی وفات تک اس کی ملکیت میں نہیں آئی تھی؛ لہٰذا ترکہ میں جو چار حقوق واجب ہوتے ہیں وہ اس رقم میں واجب نہیں ہوں گے، اور میراث بھی اس میں جاری نہ ہوگی، البتہ حکومت (یا وہ کمپنی جس سے پینشن ملی ہے) جس کو یہ رقم دے دے گی وہی اس کا مالک ہوجائے گا؛ کیوں کہ یہ ایک قسم کا انعام ہے، تنخواہ یا  اجرت نہیں، پس اگر حکومت یا کمپنی  یہ رقم میت کے کسی ایک رشتہ دار کی ملکیت کردے تو وہی اس کا تنہا مالک ہو گا  اور اگر سب وارثوں کے واسطے دے تو سب وارث آپس میں تقسیم کرلیں گے۔۔۔‘‘ الخ

(ص:۱۵۳، ۱۵۴ ،ط: ادارۃ المعارف)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں