بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیناڈول ٹیبلیٹ کو مارکیٹ ریٹ سے زائد قیمت میں فروخت کرنے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ" پیناڈول ٹیبلیٹ"  جو کہ 24 روپے کی آتی ہے اور مارکیٹ میں مختلف ریٹ پر فروخت ہوتی ہے ،مثلاً: 30 ،40میں اور کہیں 50 اور 80روپےمیں بھی فروخت ہوتی ہے، کیا اتنا نفع رکھنا جائز ہے ؟اور یہ میڈیسن ہر بندے کی ضرورت ہے۔

جواب

  "پینا ڈول  ٹیبلیٹ" کی قیمت چوں کہ حکومت کی جانب سے مقررہے،اورمارکیٹ و عرف میں تاجر حضرات ادویات حکومتی نرخ کے مطابق ہی فروخت کرتے ہیں،لہذا "پیناڈول ٹیبلیٹ" کو  اس کی مقررہ قیمت سے زائد سے فروخت کرنے سےاجتناب لازم ہے البتہ اگر تاجر حضرات کو "پیناڈول ٹیبلٹ"اس کی کمپنی کی جانب سے مہنگی مل رہی ہو،اورحکومتی مقررہ نرخ میں فروخت کرنے کی صورت میں تاجروں کو نقصان ہورہاہو، تو اس صورت میں مناسب و معتاد منافع رکھ کر زائد قیمت پر فروخت کرنا جائز ہوگا۔

لما رواه الإمام احمد بن حنبل رح في مسنده:

"عن أبي هريرة، أن رجلا جاء إلى النبي - صلي الله عليه وسلم -، فقاق: ‌سعر. فقال: "إن الله عز وجل يرفع ويخفض، ولكني لأرجو أن الله عز وجل: وليس لأحد عندي مظلمة".

( ج:8،ص:317،رقم الحديث:8427، ط:دار الحديث،القاهرة)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو"۔

مارواه الإمام أبي داود رح في سننه:

"عن أنس: قال الناس: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - غلا السعر ‌فسعر ‌لنا، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن الله هو المسعر، القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله عز وجل وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال".

(باب في التسعير،ج:5،ص:322،رقم الحديث:3451،ط:دار الرسالة العالمية)

"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا"۔

في درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها". 

(المادة:153،ج:1،ص:124،ط:دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں