میرے دادا جان کی میر علی تحصیل میں کلاس فور کی ملازمت تھی۔ ان کی وفات کے بعد یہ ملازمت میرے والد صاحب کو منتقل ہو گئی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم سب بھائیوں نے مل کر ان کی پنشن وصول کی اور اسے مشترکہ طور پر خرچ کیا۔والد صاحب کی زندگی میں، ان کی ہدایت کے مطابق، میں نے یہ نوکری اپنے نام منتقل کروالی۔
اب میں تقریباً 33 سال سے یہ ملازمت کر رہا ہوں اور اپنی تنخواہ کو اجتماعی طور پر گھر کے اخراجات میں خرچ کرتا رہا ہوں۔اب جب کہ مجھے خود ذاتی ضرورت لاحق ہوئی ہے، میرے تمام بھائی اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں اور اپنے کاروبار کا نفع خود رکھتے ہیں۔اس کے باوجود وہ مجھ سے میری پنشن اور تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وراثت ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:کیا یہ نوکری یا اس کی تنخواہ میراث میں شمار ہوتی ہے؟کیا میرے بھائی اس تنخواہ اورمیری پنشن میں میرے ساتھ شریک ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب والدکی جگہ مذکورہ نوکری سائل کودی گئی اور سائل خودایک عرصہ سے یہ ملازمت کررہاہے، تو اس ملازمت کی تنخواہ اوریٹائرمنٹ کےبعدملنےوالی پنشن کامستحق خودسائل ہے،سائل کےبھائیوں کامحض والدکی جگہ سائل کےسرکاری ملازم مقررہونے پر اس تنخواہ اورپنشن کامطالبہ کرنایااس میں اپنے آپ کوشریک سمجھناجائز نہیں ہے۔تنخواہ اورپنشن دونوں کاحق دارسائل خودہے۔
الدرالمختارمیں ہے:
"(والثاني) وهو الاجير (الخاص) ويسمى أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتابالتخصيص ويستحق الاجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهراللخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأج ر مسمى، بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا، إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا، وتحقيقه في الدرر."
(كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير،ص:583،ط:دارالکتب)
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."
(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ج: 5 ص:51،ط : سعید)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100948
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن