آج کل گداگر بہت زیادہ ہو چکے ہیں، گھروں پہ مانگنے کے لیے بھی آجاتے ہیں،ان سے عرض بھی کیا جاتا ہے کہ ہمیں معاف کرو پھر بھی نہیں جاتے،بہت تنگ کرتے ہیں اور جب تک جھڑکو نہیں توہٹتے ہی نہیں، راہ نمائ فرمائیں ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟
جو شخص حقیقۃً ضرورت مند اور نہ محتاج ہو اس کے لیےبھیگ مانگنا جائز نہیں،اسی طرح جو شخص کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں،تاہم اگر کوئی شخص واقعی ضرورت مند ہو کہ اس کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو ،فاقہ سے ہو یا کوئی اور سخت ضرورت پیش آگئی ہو تو اس کے لیے انتہائی مجبوری کی بنا پر وقتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سوال کی گنجائش ہے،لیکن بھیگ مانگنے کو پیشہ بنالینا کسی طور پربھی جائز نہیں،نیز جن کے بارے میں معلوم کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں ،ان کو دینا بھی نہیں چاہیے،باقی نہ دینے کی صورت میں بھی نرمی سے معذرت کرلینی چاہیے،جھڑکنا یا متکبرانہ انداز میں منع کرنا،درست نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم (ولو سأل للكسوة) أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم (جاز) لو محتاجا."
(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ والعشر، ج:2، ص:355، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"قوله: ولا يسأل من له قوت يومه) أي لا يحل سؤال قوت يومه لمن له قوت يومه لحديث الطحاوي: «من سأل الناس عن ظهر غنى فإنه يستكثر من جمر جهنم قلت يا رسول الله وما ظهر غنى قال: أن يعلم أن عند أهله ما يغذيهم وما يعشيهم» قيدنا بسؤال القوت؛ لأن سؤال الكسوة المحتاج إليها لا يكره وقيدنا بالسؤال؛ لأن الأخذ لمن ملك أقل من نصاب جائز بلا سؤال كما قدمناه، وقيد بمن له القوت؛ لأن السؤال لمن لا قوت يومه له جائز، ولا يرد عليه القوي المكتسب فإنه لا يحل سوال القوت له إذا لم يكن له قوت يومه؛ لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم فكأنه مالك له."
(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ، ج:2، ص:269، ط:دار الكتاب الإسلامي)
بذل المجهود میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للسائل حق وإن جاء على فرس يعني إذا سأل سائل أحدا ينبغي له أن يحسن الظن به وإن جاء على فرس، فإنه يمكن أن يحتاج إلى ركوب الفرس، ومع ذلك تلجئه الحاجة إلى السؤال، ويكون له عائلة، أو يكون تحمل حمالة فلا يسيء الظن به، وهذا لعله باعتبار القرون الأولى،وأما في هذا الزمان فنشاهد كثيرا من الناس اتخذوا السؤال حرفة لهم، ولهم فضول أموال؛ فحينئذ يحرم لهم السؤال، ويحرم على الناس إعطاؤهم، والله أعلم."
(کتاب الزکوۃ، باب حق السائل، ج:6 ، ص:523، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100306
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن