ایک شخص کے پاس سات بکرے ہیں اور اس نے تین مہینے پہلے یہ نیت کی کہ ایک بکرا میں اپنے لیےقربانی کروں گا ،ایک اپنی بیوی کے لیے،ایک اپنی اس بیوی کےلیےجو فوت ہو گئی ہے اورایک والد صاحب کے لیے، اب اس شخص کے بچےاسے کہہ رہے ہیں ایک ایک بکرا ہمیں دے دیں،ہم سے پیسے لے لیں کیا اس کے لیے بکرا بیچنا صحیح ہے یا پھر وہ انہی بکروں کی قربانی کرے گا؟
واضح رہے کہ اگر جانور خریدتے وقت قربانی کی نیت کرے تووہ جانور قربانی کے لیے متعین ہوجاتاہے،او ر اگر جانور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں کی ،بلکہ بعدمیں نیت کی ہے تو اس سے قربانی کاجانور متعین نہیں ہوتا؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنے پاس موجود سات بکر وں کے متعلق بعد میں یہ نیّت کی تھی کہ ان میں سے ایک بکراوہ اپنی طرف سے،ایک بکرااپنی زندہ بیوی ،ایک بکرا اپنی فوت شدہ بیوی اور ایک بکرااپنے والد کی طرف سے قربانی کرے گا،اس سے مذکورہ بکرے قربانی کے لیے متعین نہیں ہوئے ہیں ؛لہٰذا مذکورہ شخص ان بکروں کو فروخت کرسکتاہے،تاہم بہتر یہ ہے کہ مذکورہ شخص انہی بکروں کی قربانی کرے۔
"بدائع الصنائع"میں ہے:
"ولو كان في ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا؛ لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر".
(كتاب التضحية،صفة التضحية،ج:5،ص:62،ط:رشيدية)
"المحیط البرہاني "میں ہے:
"أجمع أصحابنا رحمهم الله: أن الشاة تصير واجبة الأضحية بالنذر بأن قال: لله علي أن أضحي هذه الشاة، وأجمعوا على أنها لا تصير واجبة الأضحية بمجرد النية".
(كتاب الأضحية،الفصل الثاني في وجوب الأضحية بالنذر، وما هو في معناه،ج:6،ص:87،ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101938
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن