بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے شلوار پہننا سنت ہے یاقمیص؟


سوال

پہلے شلوار پہننا سنت ہے یاقمیص؟

جواب

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے استعمال کردہ لباس میں عام طور پر ازار (تہہ بند)، چادر اور قمیص کا ذکر عام ملتاہے، شلوار کا استعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے اور بعض روایات کے مطابق    آپ ﷺ سے  بھی  استعمال ثابت ہے، مگر اس کی سند کےبارے میں بعض محدثین کو تامل ہے ،البتہ رسول اللہ ﷺ سے شلوار  خریدنا     اور اسے پسند فرمانا کہ اس میں ستر کا لحاظ زیادہ ہےبلا تامل ثابت ہے۔لہذا شرعی اعتبار سے پہلے قمیص پہننے یا پہلے شلوار پہننے دونوں ہی صورتوں میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تلاش کے باوجود اس کی کوئی صراحت نہیں ملی،  البتہ  رسول اللہ ﷺ نے اسے "استر" فرمایا ہے  اسی لیےجس صورت میں ستر (پردہ) زیادہ ہو اس کو اختیار کرنا چاہیےاور چوں کہ پہلے شلوار پہننے میں  ستر کا لحاظ زیادہ  معلوم ہوتا ہے اسی لیےعام احوال میں پہلے شلوار پہننا زیادہ مناسب ہے، لیکن اس کے برعکس کرنے میں  بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔

فتح الباری میں ہے:

وصح أنه صلى الله عليه و سلم اشترى سراويل من سويد بن قيس، أخرجه الأربعة وأحمد، وصححه بن حبان من حديثه، وأخرجه أحمد أيضاً من حديث مالك بن عميرة الأسدي قال: قدمت قبل مهاجرة رسول الله صلى الله عليه و سلم فاشترى مني سراويل فأرجح لي وما كان ليشتريه عبثاً وإن كان غالب لبسه الإزار.

(کتاب اللباس؛باب البرانس،ج:10،ص:272،ط:دار المعرفۃ)

زاد المعاد میں ہے:

"واشترى صلى الله عليه وسلم سراويل، والظاهر أنه إنما اشتراها ليلبسها. وقد روي في غير حديث أنه لبِس السراويل، وكانوا يلبسون السراويلات بإذنه."

(فصل فی نسبہ ﷺ وحیاتہ؛فصل فی ملابسہ،ج:1،ص:137،ط:دار ابن حزم)

حاشیۃ الشُمُنِّی علی الشفاء میں ہے:

"قالوا: لم يثبت أنه صلى الله عليه وسلم لبس السروايل، ولكنه اشتراها ولم يلبسها، وفى الهدى لابن قيم الجوزية أنه لبسها؛ ‎قالوا: وهو سبق قلم."

(الباب الثانی؛فصل اما تواضعہﷺعلی علو منصبہ ورفعۃ،ج:1،ص:133،ط:دار الفکر)

کنز العمال میں ہے:

"عن علي قال: كنت قاعدا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عند البقيع في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله! إنها متسرولة، فقال: اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي! يا أيها الناس! اتخذوا السراويلات، فإنها من أستر ثيابكم، وحصنوا بها نساءكم إذا خرجن. البزار، عق، عد، ق في الأدب والديلمي؛ وأورده ابن الجوزي في الموضوعات فلم يصب، والحديث له عدة طرق."

(حرف المیم؛کتاب المعیشۃ من قسم الافعال؛ادب اللباس،ج:15،ص:463،رقم:41838،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘  میں کرتہ پہلے پہننے کو بہتر لکھا ہے، بظاہر اس کا تعلق موقع محل سے ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں