بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے چھپ کر نکاح کیاپھر گھر والوں کے سامنے دوبارہ نکاح کیا، تو مہر کونسادینا ہوگا؟پہلے نکاح والا یادوسرے نکاح والا؟


سوال

1۔ایک آدمی  دوبالغ مردوں کو گواہ بناتے ہوئے اُن کے سامنے ایک عورت سے کہتاہے کہ :" میں تم سے پانچ ہزار روپے نقد مہرپر نکاح کرتاہوں ، کیاتمہیں قبول ہے؟"، تو عورت جواب میں کہتی ہے کہ:"ہاں مجھے قبول ہے"تو کیا یہ نکاح ہوگیا یانہیں؟جب کہ دونوں ( مرد اور عورت) عاقل ، بالغ ہیں۔

2۔پانچ سال بعد یہ مرد اور عورت دوبارہ لڑکی کے بھائی اور دیگر رشتہ  داروں کے سامنے بھرے مجمع میں نکاح کرتے ہیں ، اورلڑکی کے بھائیوں کے زور کی وجہ سے لڑکاکہتا ہے کہ چلو مہر میں مکان لکھ لو،اب سوال یہ ہے کہ اس عورت کامہر یہ مکان ہوگایاجوپہلی مرتبہ نکاح میں پانچ ہزارروپے  مہرطے ہواتھاوہ مہر ہوگا؟

3۔نکاح کے بعد بیوی کہتی ہے کہ اس مکان میں آدھا میرااور آدھا پہلی بیوی کا ہوگا، تو اس کاکیاحکم ہے؟

4۔اگر اس بیوی کاانتقال ہوجائے اور اس کی اولاد نہ ہوتو پھر یہ مکان اور بیوی کے دیگر زیورات وغیرہ کس کو دیے جائیں گے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے دوبالغ مردوں کوگواہ بناکر اُن کے سامنے ایک عورت سے کہاکہ:" میں تم سے پانچ ہزار روپے نقد مہر  پر نکاح کرتاہوں ، کیاتمہیں قبول ہے؟"اور اس کے جواب میں عورت نے کہا کہ:"ہاں مجھے قبول ہے" تواُن  دونوں کانکاح ہوگیااور وہ دونوں میاں بیوی بن گئے۔

2۔صورتِ مسئولہ میں دوسری مرتبہ نکاح میں  اگر شوہر نے سابقہ مہر بڑھانے کی غرض سے مکان مہرمیں لکھوایا ہے توپھر مکان دینالازم ہوگااور اگرسابقہ مہربڑھانے کی غرض سے نہیں لکھوایا، صر ف دِکھلاوے کی غرض سے لکھوایاتو پھر صرف وہی سابقہ  (پانچ ہزار روپے)  مہردینا لازم ہوگا، مکان دینا لازم نہیں ہوگا۔

3۔نکاح کے بعد مذکورہ عورت کے صرف زبانی طور پراس کہنےکہ :" اس مکان میں آدھامیرا ہوگا اور آدھاپہلی بیوی کاہوگا" کاکوئی اعتبار نہیں۔مذکورہ مکان اگر شوہر نے  مہر میں اضافہ کی نیت سے لکھوایا تھاتو پھر وہ اِس عورت کی ملکیت ہے ،سابقہ بیوی کااس میں حق نہیں ،البتہ اگر یہ عورت اپنے شوہر کی سابقہ بیوی کو  اس گھر  کاآدھاحصہ دیناچاہتی ہے تواُس کے لیے ایساکرناجائز ہے ، لیکن صرف زبانی یہ کہنا کافی نہیں ہوگاکہ گھر کاآدھاحصہ سابقہ بیوی کاہے ،بلکہ گھر کے اس آدھے حصے کومتعین کرکے مالکانہ حقوق کے ساتھ اس پر شوہر کی سابقہ بیوی کو   قبضہ بھی دیناہوگااور اگر شوہر نے مذکورہ مکان مہر میں اضافہ کی نیت سے نہیں لکھوایاتھا،بلکہ صر ف دکھلاوے کے لیے لکھوایاتھاتو پھر یہ مکان شوہر کی ملکیت ہےاور مذکورہ عورت پھر اپنےشوہر کی سابقہ بیوی کواس میں حصہ دینے کااختیار نہیں رکھتی۔

4۔اگربیوی کا انتقال ہوجائےتو  اس کی تمام جائیداد منقولہ  وغیر منقولہ    اُس وقت اُس کےجتنےشرعی ورثاء ہوں گے اُن سب میں اُن کے شرعی حصوں کے مطابق  تقسیم ہوگی۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلا كان كالأمر أو حالا كالمضارع، كذا في النهر الفائق فإذا قال لها أتزوجك بكذا فقالت قد قبلت يتم النكاح."

(كتاب النكاح، الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لا ينعقد به، 270/1، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الكافي: جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر.قال ابن عابدين:(قوله وفي الكافي إلخ) حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم الألفان ويكون زيادة في المهر. وعند أبي يوسف المهر هو الأول لأن العقد الثاني لغو، فيلغو ما فيه. وعند الإمام أن الثاني وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة،....... ثم ذكر أن قاضي خان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر."

(كتاب النكاح، باب المهر، 112/3، ط: سعید)

وفیہ ایضًا:

"(وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح) بخلاف أطعمتك أرضي فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها بحر (أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (يعبر به عن الكل ك وهبت لك فرجها وجعلته لك) لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔الخ.قال ابن عابدین: (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة."

(کتاب الھبة، 5/ 688،689، ط: سعید)

وفیہ ایضًا:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)."

(کتاب الھبة، 688/5، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث."

(كتاب الفرائض، الباب الأول  في تعريفها وفيما يتعلق بالتركة، 447/6، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں