بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی صف میں رومال وغیرہ رکھ کر جگہ خاص کر لینے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ: میں  ایک مسجد میں  نماز پڑھنے جاتا ہوں  تو  پہلی صف میں چند لوگ پہلے سے  مصلیٰ، رومال، تسبیح اور رحل پر قرآن مجید  وغیرہ رکھ کر  پہلی صف  میں خصوصی طور پر مؤذن کے برابر جگہ گھیر لیتے ہیں اور خود موجود نہیں ہوتے، یہ لوگ یا تو مسجد کی لائبریری، یا دلان میں کر سی پر یا مسجد کے ایک حصہ میں درس وغیرہ میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ایک صاحب تو مسجد کے باہر موٹر سائیکل پر اپنا کام وغیرہ نمٹا رہے ہوتے ہیں اور ان کا سامان ان کی جگہ گھیرے رکھا ہوتا ہے۔ ایک صاحب پہلے آ کے بعد میں اپنی جگہ آنے والے صاحب سے تبدیل کرتے ہیں ۔ 

ہاں دو شخص ایسے بھی ہیں جو پہلی صف کے دائیں اور بائیں کونوں میں ہمیشہ بیٹھے ہیں مگر ان کی ٹانگ میں معذوری ہے۔کبھی کسی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی  جگہ گھیر ےرکھتا ہے۔  ہاں پہلی صف کے ساتھ الماری سے قرآن پاک نکالنے  کے لیے بھی جگہ سے اٹھنا پڑتا ہے، ایک صاحب جن کی کمر میں کچھ تکلیف ہے مگر چلنے پھرنے میں بالکل ٹھیک ہیں وہ مؤذن کے برابر میں دوسر یا تیسرے نمبر پر دائیں طرف کرسی رکھ کر بیٹھتے ہیں نماز سے پہلے اور فوراً بعد میں مگر نماز کے وقت نہیں۔ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں!

جواب

مسجد اللہ جل شانہ کا گھر ہے، جس میں تمام مسلمان برابر کے حق دار ہوتے ہیں، اس پر کسی کی ذاتی ملکیت  نہیں ہوتی، لہذا مسجد میں کسی جگہ کو ڈیکس، رومال، چادر، مصلی، تسبیح وغیرہ رکھ  کر اپنے لیے متعین کرکے چلے جانا اور جماعت کے وقت آکر اس جگہ پر اپنا حق جتانا اور بیٹھے ہوئے شخص کو اس جگہ سے ہٹنے پر مجبور کرنا یا اس جگہ پر کسی کو بیٹھنے نہ دینا، یہ سب ناجائز ہے۔

 البتہ پہلے سے مسجد میں آکر کسی جگہ بیٹھنے کے بعد بغرضِ وضو  یا قرآنِ مجید لینے کے لیے اٹھتے ہوئے اس جگہ پر رومال، تسبیح وغیرہ رکھ کر جانا، یا پاس پڑوس میں بیٹھے شخص کو کہہ کر جانا جائز ہے، اور اس طرح کرنے سے وہ جگہ اس شخص کے لیے مخصوص رہے گی۔  اور اسی طرح اگر کوئی شخص آ کر کسی جگہ بیٹھ گیا، پھر کوئی فوری ضرورت پیش آئی جس کو پورا کرتے ہی لوٹ کر آئے گا، مثلاً: تھوکنا، ناک صاف کرنا اور جاتے وقت اپنی جگہ کپڑا رکھ کر چلا گیا تو اس میں مضائقہ نہیں اور دوسرے شخص کو اس کی جگہ بیٹھنا بھی نا مناسب ہے۔

نیز  جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور  بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد وہ بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔

اور اگر زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، سجدے کا اشارہ رکوع کے مقابلے میں زیادہ کرے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمیں پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر فرض نمازیں، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اور اس کے لیے شروع سے بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وتخصيص مكان لنفسه) لأنه يخل بالخشوع، كذا في القنية: أي لأنه إذا اعتاده ثم صلى في غيره يبقى باله مشغولا بالأول، بخلاف ما إذا لم يألف مكانا معينا (قوله وليس له إلخ) قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره. قال الأوزاعي: له أن يزعجه، وليس له ذلك عندنا اهـ أي لأن المسجد ليس ملكا لأحد بحر عن النهاية.

قلت: وينبغي تقييده بما إذا لم يقم عنه على نية العود بلا مهلة، كما لو قام للوضوء مثلا ولا سيما إذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده تأمل. مطلب فيمن سبقت يده إلى مباح وفي شرح السير الكبير للسرخسي: وكذا كل ما يكون المسلمون فيه سواء كالنزول في الرباطات، والجلوس في المساجد للصلاة، والنزول بمنى أو عرفات للحج، حتى لو ضرب فسطاطه في مكان كان ينزل فيه غيره فهو أحق، وليس للآخر أن يحوله."

(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، صفحہ: 662، ط: ایچ، ایم، سعید) 

وفیہ ایضاً: 

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطاً بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعداً) وهو أفضل من الإيماء قائماً؛ لقربه من الأرض، (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً (ولا يرفع إلى وجهه شيئاً يسجد عليه) فإنه يكره تحريماً (فإن فعل) بالبناء للمجهول ذكره العيني (وهو يخفض برأسه لسجوده أكثر من ركوعه صح) على أنه إيماء لا سجود إلا أن يجد قوة الأرض (وإلا) يخفض (لا) يصح؛ لعدم الإيماء.

(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولوصلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربةً بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ. قال في البحر: ولم أر ما إذا تعذر الركوع دون السجود غير واقع اهـ أي لأنه متى عجز عن الركوع عجز عن السجود نهر. قال ح: أقول على فرض تصوره ينبغي أن لا يسقط؛ لأن الركوع وسيلة إليه ولايسقط المقصود عند تعذر الوسيلة، كما لم يسقط الركوع والسجود عند تعذر القيام.... (قوله: أومأ قاعداً)؛ لأن ركنية القيام للتوصل إلى السجود فلا يجب دونه ... (قوله: لقربه من الأرض) أي فيكون أشبه بالسجود، منح. 
(قوله: إلا أن يجد قوة الأرض) هذا الاستثناء مبني على أن قوله: ولا يرفع إلخ شامل لما إذا كان موضوعاً على الأرض وهو خلاف المتبادر، بل المتبادر كون المرفوع محمولاً بيده أو يد غيره، وعليه فالاستثناء منقطع لاختصاص ذلك بالموضوع على الأرض، ولذا قال الزيلعي: كان ينبغي أن يقال إن كان ذلك الموضوع يصح السجود عليه كان سجوداً وإلا فإيماء اهـ وجزم به في شرح المنية. واعترضه في النهر بقوله وعندي فيه نظر؛ لأن خفض الرأس بالركوع ليس إلا إيماء، ومعلوم أنه لا يصح السجود بدون الركوع ولو كان الموضوع مما يصح السجود عليه. اهـ.أقول: الحق التفصيل وهو أنه إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء وميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع، فلا يعتبر السجود بعد الإيماء مطلقاً وإن كان مع الانحناء كان ركوعاً معتبراً حتى إنه يصح من المتطوع القادر على القيام. فحينئذٍ ينظر إن كان الموضوع مما يصح السجود عليه كحجر مثلاً ولم يزد ارتفاعه على قدر لبنة أو لبنتين فهو سجود حقيقي فيكون راكعاً ساجداً لا مومئاً حتى إنه يصح اقتداء القائم به وإذا قدر في صلاته على القيام يتمها قائماً، وإن لم يكن الموضوع كذلك يكون مومئاً فلايصح اقتداء القائم به، وإذا قدر فيها على القيام استأنفها بل يظهر لي أنه لو كان قادراً على وضع شيء على الأرض مما يصح السجود عليه أنه يلزمه ذلك؛ لأنه قادر على الركوع والسجود حقيقةً، ولايصح الإيماء بهما مع القدرة عليهما بل شرطه تعذرهما، كما هو موضوع المسألة. (قوله: وإلا يخفض) أي لم يخفض رأسه أصلاً بل صار يأخذ ما يرفعه ويلصقه بجبهته للركوع والسجود أو خفض رأسه لهما، لكن جعل خفض السجود مساوياً لخفض الركوع لم يصح؛ لعدم الإيماء لهما أو للسجود".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة المريض، ج: 2، صفحہ: 97 و98، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں