بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کے گھر میں دوسری بیوی کو رکھنا اور پہلی بیوی کا اپنی سوتن سے خدمت لینا


سوال

شوہر کی دوسری بیوی پہلی بیوی کے گھر میں اس کی مرضی کے خلاف رہ سکتی ہے یا نہیں؟ جب کہ گھر پہلی بیوی کی ملکیت میں ہے۔

جب تک دوسری بیوی کا گھر نا ہوجائے، اگر پہلی بیوی شوہر کی دوسری بیوی سے اپنے گھر میں رہائش کے عوض   اس سے کام لے،  اور جب تک علیحدہ گھر نا ہو تو وہ رہ سکتی ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ بیوی کو رہائش فراہم کرنا شوہر کے ذمہ واجب ہے، لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی دوسری بیوی کو علیحدہ رہائش  فراہم کرے، اور دونوں بیویوں کے درمیان  لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے،  اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء، تحفہ  تحائف  وغیرہ  دے،  تاہم سائلہ کے لیے اپنی سوتن کو اپنے گھر میں ٹھہرانے کے عوض میں کام کاج لینا جائز نہیں ہوگا، البتہ رہائش کا معروف کرایہ مقرر کر سکتی ہے، جسے ادا کرنا شوہر پر لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز ."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكنى، ١ / ٥٥٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں