بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کو اطلاع کیے بغیر دوسرا نکاح


سوال

میرے شوہر نے   پہلی بیوی سے چھپ کےمجھ سے دوسری شادی کی، مگر اب پہلی بیوی کو پتہ چل گیا ہے، وہ میرا نکاح ختم کرانے پر تلی ہوئی ہے، وہ کہتی ہے میں کسی ایسے حکم کو نہیں مانتی، میں نکاح کو نہیں مانتی، میں ایسی سنت کو نہیں مانتی ،برائے مہربانی اس پر اسلام کیا کہتا ہے؟ مجھے ضرور جواب دیجیے گا۔

جواب

واضح رہے کہ دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا یا اسے بتانا شرعًا ضروری نہیں ہے، البتہ شریعتِ مطہرہ نے جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے، اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر ضروریات کا سامان چھوٹی بڑی تمام اشیاء ،تحفہ تحائف وغیرہ دے ، اتنا ہی دوسری بیوی کو بھی دے ؛ پس جو شخص اپنی بیویوں کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدیں بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي".

(مشكاة المصابیح ، کتاب النکاح، باب القسم، الفصل الثاني،2/ 280، ط: قديمي)

ترجمہ:’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحداهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج".

(مرقاة المفاتيح،كتاب النكاح، باب القسم، 6/ 384، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو ... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل،3 / 1458، ط: رحمانیه)

ترجمہ:’’ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ : انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے، اور اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔‘‘

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر دوسری شادی کرنے میں پہلی بيوی کو مطلع  نہ کرنے یا اس کی اجازت نہ لینے کی وجہ سے گناہ گار تو نہیں، البتہ اب اس پر لازم ہے  کہ حتی الامکان دونوں بیویوں کے حقوق میں کوتاہی نہ کرے، نیز سائلہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کی پہلی بیوی سے اچھا سلوک و اخلاق حسنہ روا رکھے، تاکہ ان کی دل جمعی بھی ہو اور سائلہ کے شوہر کا گھر بھی خوشی کے ساتھ بس جائے،باقی سائلہ نے شوہر کی پہلی بیوی کے جو جملے نقل کیے ہیں، اگر واقعۃ مذکورہ خاتون نےیہ باتیں  کہی ہیں تو ان کی یہ بات درست نہیں، بلکہ شریعت میں (ایک بیوی کے ہوتے ہوئے)دوسرے نکاح کی(بلکہ بیک وقت چار نکاحوں تک کی) اجازت ہے۔نیز مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں۔

تفسیرِ مظہری میں ہے:

 "لمّا نزل الوعيد فى أكل أموال اليتامى كانوا يتحرجون فى أموالهم ويترخصون فى النساء ويتزوجون ما شاءوا وربما لا يعدلون فنزلت، فقال الله تعالى: فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا في حقوق اليتامى فخافوا أيضا أن لا تعدلوا بين النساء فانكحوا مقدار ما يمكنكم القيام بحقوقهن أخرجه ابن جرير وهو قول سعيد بن جبير والضحاك والسدى .........(إلى أن قال:).....(مسئلة:) تعليق الاختصار على الواحدة أو التسري بخوف الجور يدل على أنه عند القدرة على أداء حقوق الزوجات والعدل بينهن الأفضل الإكثار فى النكاح." 

(سورۃ النساء، آیت: ۳،  ج:۲، ص:۹، الناشر: مكتبة رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں