بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوی کی زکاۃ دوسری بیوی کو دینا


سوال

اگر شوہر اپنی پہلی بیوی کے سونے کی زکاۃ اپنی دوسری بیوی جو کہ صاحبِ نصاب نہیں ہے، کو دے دے ، تو کیا زکاۃ ادا ہوجائے گی؟

جواب

واضح رہے کہاگر والدین و اولاد یا میاں بیوی کے علاوہ گھر کے افراد میں سے کوئی (مثلاً: ایک بھائی یا بہن) واقعۃً  غریب ہو اور سید گھرانے سے تعلق نہ ہو تو اسے دو شرائط کے ساتھ  زکاۃ دینا جائز ہے:

(1) زکاۃ دینے والے پر اگر اس کا نفقہ واجب ہو تو زکاۃ کی رقم  واجب  نفقے میں نہ دے۔ (2) مشترکہ خرچے یا مشترکہ استعمال کی اشیاء میں زکاۃ صرف نہ ہو۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر  پہلی بیوی اپنے زیور کی زکاۃ شوہر کی دوسری بیوی کو دیتی ہے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہوگی کہ وہ اسے مالک بناکر دے دے اور یہ رقم یا اس کے فوائد سے پہلی بیوی فائدہ نہ اٹھائے۔ 

لہٰذا اگر پہلی اور دوسری بیوی کے اخراجات مشترکہ ہوں یا استعمال کی اشیاء مشترکہ ہوں اور دی گئی زکاۃ مشترکہ اخراجات میں صرف ہو تو زکاۃ کی ادائیگی درست نہیں ہوگی۔

یہ بھی واضح رہے کہ پہلی بیوی کی زکاۃ دوسری بیوی کو دینے کے جواز کی صورت میں شوہر پہلی بیوی سے زکاۃ کی رقم لے کر دوسری بیوی کو بطورِ نفقہ نہیں دے سکتا، بلکہ شوہر پر دوسری بیوی کا واجب نفقہ الگ سے ادا کرنا لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):
"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

تحفة الفقهاء (1 / 303):
"والشرط الآخر أن لايكون منافع الأملاك متصلةً بين صاحب المال وبين المدفوع إليه؛ لأن الواجب هو التمليك من الغير من كل وجه فإذا كانت المنافع بينهما متصلةً عادةً فيكون صرفًا إلى نفسه من وجه فلايجوز.
بيان ذلك أنه لو دفع الزكاة إلى الوالدين وإن علوا أو إلى المولودين وإن سفلوا لايجوز لاتصال منافع الأملاك بينهم ولهذا لاتقبل شهادة بعضهم لبعض.
ولو دفع إلى سائر الأقارب سواهم من الإخوة والأخوات وغيرهم جاز لانقطاع المنافع بينهم من حيث الغالب". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں