بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے کا حکم


سوال

جناب میں ایک طلاق یافتہ عورت سےنکاح کرناچاہتاہوں اپنی پہلی بیوی کوبتائےبغیر،توکیا میرےلیے پہلی بیوی سےاجازت لیے بغیر مذکورہ عورت سےنکاح کرنا جائزہے؟مذکورہ خاتون کاکیس آپ کےپاس ہی آیاتھا،فتوی نمبر یہ ہے:144305100808

نوٹ: مذکورہ فتوی میں مذکورہ طلاق یافتہ عورت نے اپنے شوہر کے بارے میں یہ کہا ہے کہ میرے شوہر نے چار مرتبہ مجھے یہ الفاظ "طلاق دیتاہوں"بولےہیں،البتہ شوہر طلاق دینے سے انکاری ہے۔

 

جواب

واضح رہےکہ اسلام میں طلاق یافتہ عورت سے عدت گزرنے کےبعد نکاح کرناجائز ہے،اسی طرح  شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، البتہ ان کو اپنی تمام بیویوں کے درمیان ان کے لباس، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی کے حوالہ سے برابری کرنے کا پابند کیا ہے، اور بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے اور نا انصاف شوہروں کے حوالہ سے سخت وعیدیں سنائی ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾[النساء:3]

"ترجمہ: اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو، دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔ ( بیان القرآن ،91/1، ط: میرمحمد)"

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ ان کے درمیان برابری اور انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل".

(سنن أبی داؤد،باب فی القسم بین النساء،ج3،ص469،ط؛دار الرسالۃ العالمیۃ)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔"

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتاہے اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتاہےتو  سائل کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے،  پہلی بیوی سے اجازت لیناضروری  تو نہیں ہے،  تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لے لیں تو  بہتر ہے، تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں  اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔

نیز دوسری شادی خفیہ طور پر چھپ کر کرنا   چوں کہ مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، لہذا لڑکی کے والدین اور اپنے گھر والوں کو  راضی کرنے کی کوشش کریں؛ تاکہ نکاح کا مقصد حاصل ہوسکے، اور  نکاح چھپ کر کرنے کے بجائے علی الاعلان کریں۔

تاہم دارالافتاءسے لیے گئے پہلے فتوی 144305100808کے مطابق مذکورہ طلاق یافتہ عورت کا شوہر طلاق دینے سے انکار کرتا ہے،اس لیے مذکورہ عورت کے لیے ضروری ہوگاکہ  کسی طرح شوہر سے گواہوں کی موجودگی میں زبانی طلاق  لے کر یا تحریری طلاق لے کر یا  شوہر  سے خلع کا معاملہ کرکے  اپنے آپ کو آزاد کرالے ،اس کے بعد سائل مذکورہ عورت سے نکاح کرلے،اوراگر مذکورہ عورت کے پاس  گواہ نہ ہواور شوہر بدستور طلاق کا منکرہو تو   دونوں (میاں، بیوی) پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ ثالث مقرر کریں، اور شرعی اعتبار سے اپنا تصفیہ کرالیں ،جب تک فیصلہ نہ ہو جائےتو سائل مذکورہ عورت سے نکاح نہ کرے،طلاق کافیصلہ اگر ہوجائے تو سائل کے لیے مذکورہ عورت سے نکاح کرنے کی گنجائش ہوگی۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."

(کتاب النکاح، باب العدّۃ،مطلب عدۃ المنكوحۃ فاسدا والموطوءۃ بشبهۃ ، 526/3، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں