بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کے راضی نہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کا حکم


سوال

میری بیوی نے 2015 سے 2017 یعنی دو سال تک میرے منع کرنے کے باوجود ڈائٹنگ کی ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں، کافی علاج کروایا، لیکن ڈاکٹروں نے کہا یہ پوری زندگی یوں ہی رہے گی، آپ دوسری شادی کا بندوبست کرلیں، میں نے اس کی خدمت کے لیے ایک خادمہ بھی رکھی اور اس سے میرے تین بچے ہیں اور میں سارے اخراجات بھی برداشت کرتا ہوں، اب اپنی ضرورت کے لیے دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن بیوی نہیں مانتی اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے اور 2021 کے بارہویں مہینے میں وہ گھر چھوڑ کر بھی چلی گئی ہے، کافی منانے کے بعد بھی وہ واپس آنے کو تیار نہیں ہے، جب کہ میرے پاس اپنا ذاتی گھر ہے، دو بیویوں کو رکھ بھی سکتا ہوں اور اخراجات بھی برداشت کرسکتا ہوں تو کیا ایسی صورت میں میں دوسری شادی کرسکتا ہوں یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تُقۡسِطُواْ فِي ٱلۡيَتَٰمَىٰ فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُكُمۡۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُوا" (النساء: 3)

"ترجمہ: اور  اگر  تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو  اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو  دو  دو عورتوں  سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔" ( بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب کہ وہ انصاف کر سکے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل  اگر مالی طاقت اور وسعت کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت بھی رکھتا ہے اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ بھی ادا کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں سائل کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے، اس میں اگرچہ پہلی بیوی سے اجازت لینا شرعاً ضروری  تو نہیں ہے، تاہم سائل اگر دوسری شادی سے پہلے اپنی اہلیہ کو کسی بھی طرح راضی کرلے تو بہتر ہے، تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے اور دوسری شادی کامقصد پوری طرح سے حاصل ہو ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:48، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لايعدل بينهما لايسعه ذلك، وإن كان لايخاف وسعه ذلك، والامتناع أولى، ويؤجر بترك إدخال الغم عليها كذا في السراجية."

 (كتاب النكاح، الباب الحادي عشر في القسم، ج:1، ص:341، ط:رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں