بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کی ناراضگی کی وجہ سے دوسری شادی


سوال

میری شادی کو آٹھ ماہ ہوئے ہیں اور دو ماہ سے میری بیوی ناراض ہے اور بات نہیں کر رہی اور طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اور میرے اوپر  الزامات لگا رہی ہے۔ صرف اس بنیاد پر  طلاق چاہتی ہے کہ گھر کا کام مجھے کرنا پڑتا ہے اور میرے گھر میں دو چھوٹے بھائی، ایک چھوٹی بہن اور والدین ہیں۔ میں اسے رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ چھ ماہ کی حاملہ ہے، میں اسے طلاق نہیں دینا چاہتا لیکن وہ سارا جہیز کا سامان گھر سے لے گئی۔ میں چاہتا ہوں کہ دوسری شادی کروں تاکہ آنےو الی بیوی میرا گھر سنبھالے۔

جواب

صورت مسئولہ میں دوسری شادی کرنے کے بعد اگر موجودہ بیوی اور دوسری بیوی  کو رکھنے کے لیے ہ اگر مالی و جسمانی استطاعت ہے اور  آپ کو عدل و برابری پر قدرت  ہے تو آپ کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے۔ 

نیز پہلی بیوی کے ساتھ نباہ کے لیے بہتر ہے کہ دونوں خاندانوں کے سمجھدار لوگ مل کر آپس کے جھگڑوں اور شکایات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں کسی عالمِ دین سے رہنمائی لینا بھی مفید ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر  (أن يعدل) أي أن لايجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكور) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله: وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى: {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدةً} أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب، فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح أو للندب، ويعلم إيجاب العدل من حديث إنه إنما يخاف على ترك الواجب كما في البدائع، وعلى كل فقد دلت الآية على إيجابه، تأمل". 

(3/201، 202، باب القسم بين الزوجات، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں