بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی سے اختلافات کی وجہ سے دوسری شادی / طلاق دینے کا طریقہ


سوال

میرے اور زوجہ کے درمیان اختلاف کی وجہ سے میں زوجہ سے علیحدگی چاهتا هوں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔کہ درج ذیل صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

1-اگر میں اس کو اپنی زوجیت میں رکھوں اور دوسری شادی کروں۔

2-خلع یا طلاق کی صورت میں کیا حکم ہے؟

3- کیا میرے وارثان میری زندگی میں وراثت کا شرعی طور پر مطالبہ کر سکتے ہیں بیٹا 26سال، بیٹی 20اور23سال سب غیر شادی شدہ ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ  مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ  بیویوں درمیان برابری اور انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔ اور اگر کسی شخص  میں دوسری شادی کی استطاعت  ہے اور وہ  بیویوں میں عدل وانصاف اور (نان ونفقہ اور شب باشی میں) برابری بھی کرسکتا ہے تو اس کے لیے  دوسری شادی کرنا جائز ہے،  دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی  شرعاً ضروری نہیں ہے۔

لہذا آپ کے لیے پہلی بیوی کو اپنی نکاح میں رکھتے ہوئے دوسری شادی کرنا تو جائز ہے، لیکن دونوں بیویوں   کے درمیان برابری کرنا ضروری ہوگا، ہاں اگر پہلی بیوی شب باشی وغیرہ کا اپنے حق خود معاف کردے تو اس کو اس کا اختیار ہے۔

2۔  بلاوجہ طلاق دینا پسندیدہ نہیں ہے، مباح چیزوں میں سے سب ناپسندیدہ چیز اللہ کے ہاں طلاق ہے،  اس لیے حتی الامکان نباہ کی کوشش کرنی چاہیےکہ کسی طرح گھر خراب نہ ہو، اور   اولاد کے لیے پریشانی نہ ہو،  لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

3۔ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائے داد  کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، اس کی زندگی میں اس کی بیوہ یا اولاد کا  اس کی جائے داد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی اس کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

'' وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً ﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: « أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق»۔ قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ  (3 / 228) ط: سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لاحد  ان یاخذ  مال احد  بلا سبب شرعی"۔ (1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں