بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے زمانے کے کچھ لوگوں کے مشہور اقوال اور ان کا شرعی حکم


سوال

چند سوالات جن کی پیروی پہلے زمانے کے کچھ لوگ کرتے تھے اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟

1. کیا رات کو ناخن نہیں کاٹ سکتے؟

2. اپنے گھر کو روزانہ جھاڑو سے صاف کرنا چاہیے؟

3. نماز مغرب کے وقت پورے گھر کی لائٹس آن کریں؟

4. بچے کے فیڈر کو ڈھانپیں یا پلاسٹک کا ٹرانسپیرنٹ فیڈر استعمال کرنا غلط ہے؟

5. آپ سردیوں میں وضو میں پاؤں دھونا چھوڑ سکتے ہیں یا اگر آپ بیمار ہیں؟

6. کیا حاملہ عورت گھر سے باہر نہیں جا سکتی؟

7. گھر کا کام صرف خواتین کی ذمہ داری ہے۔

8. مہر عورتوں کی طرف سے معاف کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا ایک نیکی ہے، اگرچہ شوہر اچھی کمائی کر رہا ہو۔

9. کیا پرفیوم استعمال کرنے کی اجازت ہے؟

جواب

1.رات کے وقت ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں، جو لوگ رات کو ناخن کاٹنے کو غلط یا ناجائزکہتے ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں، اس بارے میں مختلف قسم کے جو اوہام وخیالات عوام میں مشہور ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

2۔گھر کو روزانہ جھاڑو دینا ضروری نہیں ہے،ہاں گھر کو روزانہ جھاڑو دیناگھر کی صفائی ،تنظیف اورترتیب کے لیے معاون ہے، جھاڑو کسی بھی وقت لگایا جاسکتا ہے، اس کی کوئی ممانعت شریعتِ مطہرہ کی رو سے ثابت نہیں ہے، نیز بعض لوگ شام یا رات کو جھاڑو لگانے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے، تو ایسا شریعت کی رو سے ثابت نہیں ہے، یہ محض ایک غلط بات مشہور ہے۔

3۔غروبِ  آفتاب ہونے کے بعد اندھیرے کی وجہ سے اگر لائٹ جلالی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم عوام میں ایک مشہور ومعروف بات پہلی ہوئی ہے کہ روشنی نہ کرنے کی وجہ سے شیاطین اور جنات قابض ہوجاتے ہیں، تو شرعاً یہ بات بے بنیاد ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا بھی غلط ہے۔

4۔احادیثِ  مبارکہ میں برتنوں کو ڈھکنے کے متعلق راہ نمائی دی گئی ہے، شارحینِ حدیث نے برتن ڈھکنے کے کچھ فوائد ذکر کیے ہیں،برتن ڈھکنے کی وجہ سے وہ کھانا شیطان سے محفوظ رہتا ہے،کیونکہ شیطان ڈھکے ہوئے برتن کو کھول نہیں سکتا،اسی طرح برتن ڈھکنے سےسال کی ایک رات میں نازل ہونے والی وباء سے حفاظت ہوجاتی ہے، ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نجاست اور گندگی سے حفاظت ہوجاتی ہے،نیز حشرات اور کیڑے مکوڑوں سے بھی حفاظت ہوجاتی ہے، بسا اوقات کیڑے مکوڑے برتن میں گرجاتے ہیں، اور آدمی بے خبری میں کھا پی لیتا ہے اور اس کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے بچے کا فیڈر ہو یا کوئی اور برتن ہو، اس کو ڈھکنا بہتر ہے،  نہ ڈھکنے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہے، نیز   پلاسٹک کا ٹرانسپیرنٹ فیڈر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

5۔واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں سردی میں وضو کرنے کی خوب فضیلت بیان کی گئی ہے، حدیث شریف میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے سخت سردی کے زمانے میں اچھی طرح وضو کیا اسے دو گنا ثواب ملے گا۔

مذکورہ حدیث کی رو سےجہاں تک ممکن ہو وضو ہی کرنا چاہیے، آج کل پانی گرم کرنے کے اسباب بھی عموماً ممکن ہوتے ہیں، یا ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے بعد جسم کو گرم رکھنے کے اسباب عموماً میسر ہوتے ہیں، اس لیے اولاً تو وضو ہی کرنا چاہیے، ہاں اگر کوئی شخص بیمار ہو اور سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے باعث جان جانے، یا کسی عضو کے تلف ہونے یا مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو  تو ایسی صورت میں تیمم کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن اگر بیماری نہ ہو اور بیماری کا محض اندیشہ ہو تو اس صورت میں تیمم کی اجازت نہ ہو گی۔

اسی طرح اگر کسی علاقے میں سردی زیادہ ہو یا پاؤں بار بار دھونے میں حرج یا تکلیف ہو تو شرائط کے مطابق وضو کرکے چمڑے کا موزہ پہن کر اس پر مسح کرنے کی اجازت ہوگی،  اس مسح کی مدت مقیم کے لیے  ایک دن اور ایک رات ہے، اور شرعی مسافر کے لیے تین دن اور تین رات ہے، اس مدت کے پورا ہونے کے بعد موزوں پر مسح کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ دوبارہ باوضو حالت میں پہن لیے جائیں تو پھر اتنی ہی مدت تک مسح کی اجازت ہوگی۔

6۔حاملہ عورت بوقتِ ضرورت پردے کا اہتمام کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے، شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

7۔  گھر کے کام کاج (کھانا پکانا اور صفائی وغیرہ) دیانۃً اور اخلاقاً خواتین کے ذمہ داری ہے، جہاں مرد باہر کے کام سر انجام دیتے ہیں وہاں خواتین کو گھر کے کام سر انجام دینے چاہیے ، چناں چہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مابین تقسیم کار اس طرح فرمایا کہ باہر کا کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ اور گھر کا کام حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذمہ،البتہ مردوں کو بھی گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے، چنانچہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے ٹھیک کرتے، کپڑے سیتے اور اپنے گھر میں اس طرح کام کرتے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کرتا ہے۔

8۔مہر عورت کا حق ہوتا ہے، مہر بیوی کا حق ہے، طلب کرنا ،مؤخر کرنا یا معاف کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے، لہٰذا اگر عورت اپنی دلی خوشی اور رضامندی سے( کسی جبر و اکراہ کےبغیر) خود معاف کردے  تو   مہر معاف ہوجائے گا اورشوہر پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا، البتہ مہر معاف کرنے  کے لیے شوہر کی طرف سےبیوی پر  کسی بھی قسم کی زبردستی یا جبر و اکراہ کرنا جائز  نہیں ،بلکہ یہ سراسر ظلم ہوگا۔

9۔جن  پرفیومز میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل کیا جاتا ہے، ان پرفیومز کا استعمال ناجائز ہے، ایسے پرفیوم لگانے سے کپڑا یا جسم ناپاک ہوجاتا ہے، تاہم جس پرفیوم میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل نہیں کیا جاتا ہے،ان کا استعمال جائز ہے، عام طور پر ملنے والے پرفیومز اسی طرح کے ہوتے ہیں۔

نیز عورتوں کے لیے ایسے پرفیوم لگانے کی اجازت ہے جس کی مہک کم ہو اور اس میں رنگ غالب ہو،عورتوں کے لیے پھیلنے والا پرفیوم   لگاکر  باہرنکلنا جس سے لوگ متوجہ ہوں ناجائز ہے،  ایسی عورت گناہ گار ہے،اس عمل سے اجتناب ضروری ہے ، ہاں اگر مہک والا پرفیوم عورت گھر کے اندر  اپنے شوہر کے لیے لگائے تو جائز ہے۔

"فتاوی ہندیہ" میں ہے:

"حكي أن هارون الرشيد سأل أبا يوسف - رحمه الله تعالى - عن قص الأظافير في الليل؟ فقال: ينبغي، فقال: ما الدليل على ذلك؟ فقال: قوله عليه السلام: «الخير لايؤخر»، كذا في الغرائب."

(كتاب الكراهية،الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها،ج:5،ص:358،ط:دار الفكر)

"سنن ترمذی" میں ہے:

"عن صالح بن أبي حسان، قال: سمعت سعيد بن المسيب، يقول: «‌إن ‌الله ‌طيب يحب الطيب، نظيف يحب النظافة، كريم يحب الكرم، جواد يحب الجود، فنظفوا - أراه قال - أفنيتكم ولا تشبهوا باليهود»."

(ابواب الادب،باب ما جاء فی النظافۃ،ج:4،ص:409،ط:دار الغرب الاسلامي)

"تحفة الاحوذی" میں ہے:

"فنظفوا) قال الطيبي الفاء فيه جواب شرط محذوف أي إذا تقرر ذلك فطيبوا كل ما أمكن تطييبه ونظفوا كل ما سهل لكم تنظيفه حتى أفنية الدار وهي متسع أمام الدار وهو كناية عن نهاية الكرم والجود فإن ساحة الدار إذا كانت واسعة نظيفة طيبة كانت أدعى بجلب الضيفان وتناوب الواردين والصادرين انتهى."

(كتاب الادب،باب ما جاء في النظافة،ج:6،ص:68،ط:دار الكتب العلمية)

"صحیح مسلم" میں ہے:

"عن جابر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «غطوا الإناء، وأوكوا السقاء، وأغلقوا الباب، وأطفئوا السراج، فإن الشيطان لا يحل سقاء، ولا يفتح بابا، ولا يكشف إناء، فإن لم يجد أحدكم إلا أن يعرض على إنائه عودا، ويذكر اسم الله، فليفعل، فإن الفويسقة تضرم على أهل البيت بيتهم»، ولم يذكر قتيبة في حديثه وأغلقوا الباب."

(كتاب الاشربة،ج:3،ص:1594،ط:دار احياء التراث العربي)

"شرح النووی" میں ہے:

"وذكر العلماء للأمر بالتغطية فوائد منها الفائدتان اللتان وردتا في هذه الأحاديث وهما صيانته من الشيطان فإن الشيطان لايكشف غطاء ولايحل سقاء وصيانته من الوباء الذي ينزل في ليلة من السنة والفائدة الثالثة صيانته من النجاسة والمقذرات والرابعة صيانته من الحشرات والهوام فربما وقع شيء منها فيه فشربه وهو غافل أو في الليل فيتضرر به والله أعلم."

(كتاب الاشربة،ج:13،ص:183،ط:دار احياء التراث العربي)

"فتاوی ہندیہ"میں ہے:

"وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي. واختاره في الأسرار. لكن الأصح عدم جوازه إجماعاً، كذا في النهر الفائق. والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.

ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم."

(كتاب الطهارة،ج:1،ص:28،ط:دال الفكر)

"مجمع الزوائد "میں ہے:

"‌وعن ‌علي ‌بن ‌أبي ‌طالب، «‌عن ‌النبي - ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم - ‌قال: " ‌من ‌أسبغ ‌الوضوء ‌في ‌البرد ‌الشديد ‌كان ‌له ‌من ‌الأجر ‌كفلان» ".رواه الطبراني في الأوسط."

(باب في إسباغ الوضوء،ج:1،ص:237،ط:مكتبة القدسي)

"زاد المعاد"میں ہے:

"قال ابن حبيب في «الواضحة»: «‌حكم ‌النَّبيُّ - صلى الله عليه وسلم - بين عليِّ بن أبي طالبٍ وبين زوجته فاطمة حين اشتكيا إليه الخدمة، فحَكَم على فاطمة بالخدمة الباطنة خدمة البيت، وحكم على عليٍّ بالخدمة الظَّاهرة»، ثمَّ قال ابن حبيب: والخدمة الباطنة: العجين والطَّبيخ والفرش وكنس البيت واستقاء الماء، وعمل البيت كلِّه."

(ذكر أقضيته وأحكامه في النكاح وتوابعه،فصل في حكم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في خدمة المرأة لزوجها،ج:5،ص:262،ط:دار ابن حزم)

"مشكاة المصابيح "میں ہے:

"وعن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخصف نعله ويخيط ثوبه ويعمل في بيته كما يعمل أحدكم في بيته وقالت: كان بشرا من البشر ‌يفلي ‌ثوبه ويحلب شاته ويخدم نفسه. رواه الترمذي."

(كتاب الفضائل والشمائل، باب في أخلاقه وشمائله صلى الله عليه وسلم،ج:3،ص:1619،ط:المكتب الاسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يسقط به ‌كل ‌المهر، فالمهر كله يسقط بأسباب أربعة۔۔۔ومنها: الإبراء عن ‌كل ‌المهر قبل الدخول وبعده إذا كان المهر دينا لأن الإبراء إسقاط، والإسقاط ممن هو من أهل الإسقاط في محل قابل للسقوط يوجب السقوط۔۔۔ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عيناً كان أو ديناً، وبعده إذا كان عيناً."

(كتاب النكاح، فصل بيان ما يسقط به ‌كل ‌المهر،ج: 2،ص:295، ط: دار الكتب العلمية)

"تکملہ فتح الملہم" میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي.

و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لا يحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخري، ولا يحكم بنجاستها أخذا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لا تتخذ من العنب او التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة،ج:3،ص:608، ط: مكتبة دار العلوم)

"سنن ترمذی" میں ہے:

"عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «كل عين زانية، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي ‌كذا ‌وكذا» يعني زانية وفي الباب عن أبي هريرة: «هذا حديث حسن صحيح»."

(ابواب الادب،باب ما جاء في كراهية خروج المرأة متعطرة،ج:5،ص:106،ط:مکتبۃ المصطفی الباجی الحلبی)

تحفة الاحوذی میں ہے:

"‌‌(باب ما جاء في طيب الرجال والنساء)

قوله (طيب الرجال) الطيب قد جاء مصدرا واسما وهو المراد هنا ومعناه ما يتطيب به علىما ذكره الجوهري (ما ظهر ريحه وخفي لونه) كماء الورد والمسك والعنبر والكافور (وطيب النساء ما ظهر لونه وخفي ريحه) كالزعفران في شرح السنة قال سعد أراهم حملوا قوله وطيب النساء على ما إذا أرادت أن تخرج فأما إذا كانت عند زوجها فلتطيب بما شاءت انتهى."

(ابواب ألادب،باب ما جاء في طيب الرجال والنساء،ج:8،ص:58،ط:دار الكتب العلمية)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں