بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے شوہر کے لوٹ آنے پر دوسرے شوہر سے نکاح کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ بڑا بھائی آرمی میں تھا جس کی موت کی خبر ایک نا دیکھنے والی حالت کی نعش کے تابوت کے ساتھ محکمہ کی تصدیق کے ساتھ ورثا کو ملی شہید شادی شدہ تھا دو بچوں کا والد تھا بعد از عدت خاندان کے بڑوں نے بیوہ کا نکاح شہید کے چھوٹے بھائی سے کروا دیا چھوٹے بھائی سے نکاح کے بعد چھوٹا بھائی بھی اب اپنے بھائی کی بیوہ سے دو بچوں کاباپ ہے اب عرصہ 5 سال چھ سات مہینوں کے بعد بڑا بھائی جس کی موت کی تصدیق نعش کے ساتھ محکمہ کرچکا تھا وہ لوٹ آیا ہے کیسے بچا کیسے لوٹ کر آیا وہ لمبی کہانی ہے اب منکوحہ اپنے ماں باپ کے گھر ہے سوال یہ ہے کہ وہ اب بڑے بھائی کے نکاح میں ہے یا چھوٹے بھائی کے نکاح میں رہے گی رہنمائی فرمائیں شکریہ

جواب

صورتِ مسؤلہ میں پہلے شوہر (بڑے بھائی) کے لوٹ  آنے  سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دوسرے نکاح کے وقت عورت بیوہ نہیں تھی بلکہ منکوحہ تھی اور منکوحہ کا پہلا نکاح جب تک برقرار ہو دوسرا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ،لہذا   مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر(بڑے بھائی) سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر(چھوٹے بھائی) کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر (چھوٹے بھائی)سے علیحدہ ہوجائے ۔ البتہ پہلے شوہر(بڑے بھائی) کو  اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے  جب تک وہ دوسرے شوہر (چھوٹے بھائی) کی عدت (تین ماہ وریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک )پوری نہ کرلے۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس"

(کتاب المفقود،ج:11،ص:37،ط:دارالمعرفة،بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں