1) میری والدہ کے چچا کی جائیداد تھی ان کا انتقال ہو گیا، ورثاء میں بیوہ اور تین بھائی چھوڑے، جب کہ میرے نانا( والدہ کے والد) مذکورہ چچا سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، اس جائیداد میں ہمارے نانا ، نانی یا والدہ کا حصہ ہے؟
2) اسی طرح ایک اور چچا کا انتقال ہوا، وہ بھی ہمارے نانا کے بعد ہوا، جب کہ اس کے بھائی بہن، اولاد بیوہ والدین کوئی نہیں تھے، البتہ بھائی کی اولاد تھی، تو کیا ہمارے نانا جو کہ مذکورہ چچا سے پہلے وفات پا گئے تھے ان کا یا ان کی بیوہ کا یا میری والدہ کا اس مرحوم چچا کی میراث میں حصہ ہے؟
1) صورتِ مسئولہ میں سائل کے نانا کا انتقال جب نانا کے بھائی کی زندگی میں ہو گیا تھا تو نانا کے بھائی کی میراث میں نانا کا یا ان کی اولاد کا حصہ نہیں تھا، بلکہ ان کی میراث کے حق دار ان کی بیوہ اور تین بھائی تھے۔
2) اس دوسرے بھائی کا انتقال بھی نانا کے انتقال کے بعد ہوا تو ان کی میراث میں بھی نانا یا ان کی بیوہ یا ان کی اولاد میں سے کسی کا حصہ نہیں ہے، البتہ اگر ورثاء پہلے فوت ہونے والے بھائی کی اولاد ( یعنی سائل کی والدہ وغیرہ) کو اپنی مرضی سے کچھ دے دیں تو اس پر ثواب کے مستحق ہوں گے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَإِذَا حَضَرَ ٱلۡقِسۡمَةَ أُوْلُواْ ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينُ فَٱرۡزُقُوهُم مِّنۡهُ وَقُولُواْ لَهُمۡ قَوۡلٗا مَّعۡرُوفٗا" [النساء: 8]
قاضی ابو السعودالحنفی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"{فارزقوهم منه} أي أعطوهم شيئا من المال المقسوم المدلول عليه بالقسمة...وهو أمر ندب كلف به البالغون من الورثة تطييبا لقوب الطوائف المذكورة وتصدقا عليهم"
(تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم 2/ 147،ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144305100084
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن