بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے بعد بار بار قطروں کے آنے کی صورت میں کپڑوں کی پاکی اور نماز حکم


سوال

مجھے پیشاب کرنے کے بعد کبھی کچھ دیر اور کبھی کئی گھنٹوں تک تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پیشاب کے قطرے خارج ہوتے رہتے ہیں، جس سے کپڑوں کی ناپاکی کا بہت مسئلہ رہتا ہے، اور عبادات کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، علاج بھی بہت کرایا ہے، لیکن  کچھ دن ہی فرق پڑتا ہے،  پھردوبارہ  سے ویسے ہی قطرے خارج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر شرمگاہ پر کچھ باندھ دیا جائے، جس سے کپڑے ناپاک نہ ہوں مثلاً اگر کوئی غبارہ  لگا یا جاۓ، تو کیا یہ عمل اسلام میں ٹھیک تصورکیا جاۓ گا؟ اگر یہ جائز ہو تو غبارہ لگا نے سے نفس پر تو کسی قسم کا نقصان تو نہیں پہنچے گا،  چوں کہ اب سردیاں آنے والی ہیں تو کپڑوں کو بار بار دھونا بھی میرے لیے مصروفیات کی وجہ سے مشکل ہے، براہ کرم اس بارے میں مجھے آگاہ کر دیجیے کہ یہ لگانا ٹھیک رہے گا؟ اور مزید اسلام میں یہ عمل کیسا ہے؟ تاکہ کپڑوں کو ناپاکی سے بچایا جا سکے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو پیشاب کرنے کے بعد مسلسل قطرے آتے رہتے ہیں، کبھی کچھ دیر کےلیے، اور کبھی کافی دیر تک، تو اسے چاہیے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد  جب تک قطرے آرہے ہیں، تو  انڈر ویر(زیر جامہ) پہن لے اور  پیشاب والی جگہ پر کوئی روئی یا ٹشو پیپر وغیرہ رکھ لے، اور جب قطرے نکلنا بند ہوجائیں، تو پھر ٹشو پیپر نکال دے اور  استنجاء کرلے، اس طرح انڈروئیر بھی ناپاک نہیں ہوگا اور پریشانی بھی دور ہوجائے گی  اور اگر قطرے پھر بھی کپڑوں پر لگ جائے، تو اس صورت میں کپڑوں کا دھونا ضروری ہے۔

نیز سائل کےلیے بہتر یہی ہے کہ وہ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھے،  اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھے، یا پھر کپڑے کے نیچے ہی زیر جامہ (نیکر یا انڈر ویر وغیرہ) پہن لیا کرے، اور نماز کے وقت اس زیرِ جامہ کپڑے کو اتار کر نماز پڑھ لیا کرے، البتہ پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کرلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا خاف الرجل خروج البول فحشا إحليله بقطنة ولولا القطنة يخرج منه البول فلا بأس به ولا ينتقض وضوءه حتى يظهر البول على القطنة. كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء،  ج:1، ص:10، ط: دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لا ينقض وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل)  الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.  (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر الذي في داخل القصبة. (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لا ينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلا فلا نقض."

( كتاب الطهارة، سنن الوضوء،  ج:1، ص:148-149، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں