بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیری مریدی ثابت ہے؟


سوال

پیری مریدی کی ابتداء کہاں سے ہوئی ؟ میرا تعلق مکتبہ فکر دیوبند سے ہے ،لیکن میرا ضمیر نہیں مانتا کہ میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کسی کو پیر مانوں  بریلویوں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے تو یہ سب بالکل ٹھیک ٹھاک ہواہےپھر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف بدعات آتی رہی ہیں ، کیا پیری مریدی امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے ؟ اگر ہے تو وہ کس کے مرید تھے؟

جواب

کسی شخص کا اچھے اخلاق کو اپناکر برے اخلاق سے اپنے آپ کو بچانااور اس کے لیے کسی سے راہ نمائی لینا اور کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا تصوف و بیعت کہلاتااور جو یہ طریقہ سکھلائے اس کو  پیرکہاجاتا ہے، سیکھنے والے کو مرید کہاجاتاہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

" پیر کی حیثیت ایک استاد کی ہے اگر استادکی ہر شخص کو ضرورت ہےتو پیر کی بھی ہر شخص کو ضرورت ہے پیر اخلاق رزیلہ کو دور کرنے اور اخلاق حسنہ کو حاصل کرنے کے طریقے تعلیم کرتا ہے اور ان طریقوں پر عمل کرنے کے راستے بتاتا ہےتمام ان لوگوں کو پیر کی ضرورت ہے جو مذکورہ بالا باتیں خود نہ کرسکیں اور اس لیے کہ استاد کے ذریعہ سے تحصیل معارف آسان ہوتی ہیں۔"

(کتاب السلوک والطریقہ، پیری مریدی سے متعلق چند سوالات کے جوابات، ج:2، ص:106، ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کے لیے بیعت کی جاتی ہے۔"

(کتاب السلوک والاحسان ،کیا پیر اور مرید کے لیے ایک امام کا مقلد ہونا ضروری ہے؟ج:21، ص:376، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہےاور کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونا اسی اصلاح کا ایک ذریعہ ہےاگرچہ اصلاح ہونا صرف بیعت ہوجانے پر ہی موقوف نہیں ہے، بیعت ہوئے بغیر بھی کسی متبع سنت و شریعت عالم اور اللہ والے سے اپنے نفس کی اصلاح کے معاملے میں راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، یہی فریضہ ہے جس کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق کہا جاتا ہے، اور یہی تصوف کا حاصل و مقصود ہے۔

جس طرح ہر مرد و عورت پر اپنے اپنے حالات و مشاغل کی حد تک اُن کے فقہی مسائل جاننا فرض ہے اور پورے فقہ کے مسائل میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا اور مفتی بننا سب پر فرض نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اسی طرح جو اَخلاقِ حمیدہ کسی میں موجود نہیں، انہیں حاصل کرنا اور جو رَذائل اس کے نفس میں چُھپے ہوئے ہیں اُن سے بچنا، تصوف کے جتنے علم پر موقوف ہے، اس علم کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور پورے علمِ تصوف میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا کہ دوسروں کی تربیت بھی کرسکے، یہ فرضِ کفایہ ہے۔

جس طرح قرآن و سنت سے فقہی مسائل و احکام نکالنا اور حسبِ حال شرعی حکم معلوم کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں، بلکہ راہ نمائی کے لیے استاذ یا فقیہ اور مفتی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، اسی طرح باطنی اخلاق کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ایک نازک اور قدرے مشکل کام ہے، جس میں بسا اوقات مجاہَدوں، ریاضتوں اور طرح طرح کے نفسیاتی علاجوں کی ضرورت پیش آتی ہے، اور کسی ماہر کی رہنمائی کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا، اس نفسیاتی علاج اور رہنمائی کا فریضہ شیخ و مرشد انجام دیتا ہے۔ اسی لیے ہر عاقل و بالغ مرد و عورت کو اپنے تزکیہ اخلاق کے لیے ایسے شیخ و مرشد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو قرآن و سنت کا متبع ہو، اور باطنی اخلاق کی تربیت کسی مستند شیخ کی صحبت میں رہ کر حاصل کرچکا ہو۔

بیعت سنت ہے، فرض و واجب نہیں: بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مرشد اور اس کے شاگرد (مرید) کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے، مرشد یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گا، اور مرید وعدہ کرتا ہے کہ مرشد جو بتلائے گا اس پر عمل ضرور کرے گا، یہ بیعت فرض و واجب تو نہیں، اس کے بغیر بھی مرشد کی رہنمائی میں اصلاحِ نفس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، لیکن بیعت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور معاہدہ کی وجہ سے فریقین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی قوی رہتا ہے، اس لیے بیعت سے اس مقصد کے حصول میں بہت برکت اور آسانی ہوجاتی ہے۔"

(امداد الاحکام، ج:1، ص:39، 47، 48، ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی)

کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونے اور ان کا مرید بننے میں کئی فائدے بھی ہیں، بہشتی زیور حصہ نمبر 7 میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مرید بننے میں کئی فائدے ہیں:

1- ایک فائدہ یہ کہ دل کے سنوارنے کے طریقے جو (بہشتی زیور حصہ سات میں) بیان کیے گئے ہیں ان کے برتاؤ کرنے میں کم سمجھی سے غلطی ہوجاتی ہے، پیر اس کا ٹھیک راستہ بتلا دیتا ہے۔

2- دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب میں پڑھنے سے بعض دفعہ اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ پیر کے بتلانے سے ہوتا ہے، ایک تو اس کی برکت ہوتی ہے، پھر یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیک کام میں کمی کی یا کوئی بری بات کی، پیر سے شرمندگی ہوگی۔

3- تیسرا فائدہ یہ کہ پیر سے اعتقاد اور محبت ہوجاتی ہے اور یوں جی چاہتا ہے کہ جو اس کا طریقہ ہے ہم بھی اس کے موافق چلیں۔

4- چوتھا فائدہ یہ ہے کہ پیر اگر نصیحت کرنے میں سختی یا غصہ کرتا ہے تو ناگوار نہیں ہوتا، پھر اس نصیحت پر عمل کرنے کی زیادہ کوشش ہوجاتی ہے۔

اور بھی بعض فائدے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ان کو حاصل ہوتے ہیں اور حاصل ہونے ہی سے وہ معلوم ہوتے ہیں۔

جب پیری مریدی کا معنی یہ ہوا کہ کسی مصلح سے تعلق قائم کرکے اچھے اخلاق سے متصف ہوکر برے اخلاق سے بچنااور حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر مصلح کون ہوسکتا ہے چناں چہ صحابہ کرام آپ (علیہ الصلاۃوالسلام )سے راہ نمائی حاصل کرکے اپنی زندگی بسر کی پھر تابعین نے صحابہ سے تبع تابعین نے تابعین سے (رحمہم اللہ) پھر وہ اپنے بعد آنے والوں کی اصلاح و راہ نمائی کرتے آئے یہاں تک کہ ہمارے اکابر وبزرگان دین نے اپنے فیض سے تشنگان معرفت الہی کو سیراب کیا، البتہ  پیرکابعض صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، اگر مرید ہونے کا ارادہ ہو تو اول پیر میں یہ باتیں دیکھ لی جائیں، جس میں یہ باتیں نہ ہوں اس سے مرید نہ ہو:

  1. "ایک یہ کہ وہ پیر دین کا مسئلہ جانتا ہو، شرع سے ناواقف نہ ہو۔
  2. دوسرے یہ کہ اس میں کوئی بات خلافِ شرع نہ ہو، جو عقیدے تم نے اس کتاب کے پہلے حصہ میں پڑھے ہیں ویسے اس کے عقیدے ہوں، جو جو مسئلے اور دل سنوارنے کے طریقے تم نے اس کتاب میں پڑھے ہیں، کوئی بات اس میں ان کے خلاف نہ ہو۔
  3. تیسرے کمانے کھانے کے لیے پیری مریدی نہ کرتا ہو۔
  4. چوتھے کسی ایسے بزرگ کا مرید ہو جس کو اکثر اچھے لوگ بزرگ سمجھتے ہوں۔
  5. پانچویں اس پیر کو بھی اچھے لوگ اچھا کہتے ہوں۔
  6. چھٹے اس کی تعلیم میں یہ اثر ہو کہ دین کی محبت اور شوق پیدا ہوجائے، یہ بات اس کے اور مریدوں کا حال دیکھنے سے معلوم ہوجائے گی، اگر دس مریدوں میں پانچ چھ مرید بھی اچھے ہوں تو سمجھو کہ یہ پیر تاثیر والا ہے، اور ایک آدھ مرید کے بُرا ہونے سے شبہ مت کرو۔ اور تم نے جو سنا ہوگا کہ بزرگوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ تاثیر یہی ہے۔ اور دوسری تاثیروں کو مت دیکھنا کہ وہ جو کچھ کہہ دیتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے، وہ ایک چھو کردیتے ہیں تو بیماری جاتی رہتی ہے، وہ جس کام کے لیے تعویذ دیتے ہیں وہ کام مرضی کے موافق ہوجاتا ہے، وہ ایسی توجہ دیتے ہیں کہ آدمی لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔ ان تاثیروں سے کبھی دھوکا مت کھانا۔
  7. ساتویں اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ نہ کرتا ہو، بے جا بات سے روک دیتا ہو۔"

(ماخوذ از:بہشتی زیور حصہ ہفتم، ص:377، 378، ط : دارالاشاعت)

الابواب والتراجم للشیخ رکریاکاندہلوی میں ہے:

"وهذه الألفاظ التي وردت في الحديث هي ألفاظ ‌البيعة عن مشايخ السلوك، وما زاد بعضهم من بعض الألفاظ فهو لمصلحة وقتية، كما زاده النبي - صلى الله عليه وسلم - أيضًا في بعض المواقع من عدم السؤال وعدم النياحة... فما فَعَلَه على جهة الخلافة كان سُنَّةً للخلفاء، وما فعله على جهة كونه معلّمًا للكتاب والحكمة ومزكِّيًا للأمة كان سُنَّةً للعلماء الراسخين."

(كتاب الإيمان،  باب، ج:٢، ص:٣٥١، ط:دار البشائر الإسلامية بيروت)

پیری مریدی کے اسی معنی کے لحاظ سے حضرت امام ابوحنیفہ (رحمہ اللہ)بھی اپنے ان اساتذہ کے مرید تھے جو اپنے وقت کے فقہاء شمار ہوتے تھے، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان کی زیر تربیت رہےیہاں تک کہ ان کے وفات کے بعد ان کےجانشین قرار پائے۔ 

من اعلام السلف میں ہے:

"وحماد بن أبي سليمان، فهذا هو شيخه المباشر الذي كان في حلقته وعلى كرسيه بعدما توفي."

(الإمام أبو حنيفة، شيوخ وتلاميذ الإمام أبي حنيفة، ج:٣، ص:١٠، ط:دار الإيمان الأسكندرية)

علو الہمۃ میں ہے:

"واستمر ‌أبو ‌حنيفة ‌ملازمًا أستاذه ثماني عشرة سنة، ولم يستقل بالدرس والتمحيص إلا بعد وفاة حماد."

(الباب الخامس، الفصل الرابع أطفالنا وعلو الهمة، كبار الهمة النابغون مختصر الطريق إلى المجد، ص:٣٩٠، ط:دار الإيمان الأسكندرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں