بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

پیر و مرشد کی بات بغیر تحقیق کے ماننا


سوال

کسی پیر کے پاس جانا اور بغیر تصدیق کے اس کی تمام باتوں کو ماننا درست ہے ؟

جواب

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے کامل پیر کی علامات بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"1. وہ پیر دین کے مسئلےجانتا ہو، شرع سے ناواقف نہ ہو۔

2. اس میں کوئی بات خلافِ شرع نہ ہو۔

3. کمانے کھانے کے لیے پیری مریدی نہ کرتا ہو۔

4. کسی ایسے بزرگ کا مرید ہو جس کو اکثر اچھے لوگ بزرگ سمجھتے ہوں۔

5. اس پیر کو بھی اچھے لوگ اچھا کہتے ہوں۔

6.اس کی تعلیم میں یہ اثر ہو کہ دین کی محبت اور شوق پیدا ہوجائے، یہ بات اس کے اور مریدوں کا حال دیکھنے سے معلوم ہوجائے گی، اگر دس مریدوں میں پانچ چھ مرید بھی اچھے ہوں تو سمجھو کہ یہ پیر تاثیر والا ہے، اور ایک آدھ مرید کے بُرا ہونے سے شبہ مت کرو۔ اور تم نے جو سنا ہوگا کہ بزرگوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ تاثیر یہی ہے۔ اور دوسری تاثیروں کو مت دیکھنا کہ وہ جو کچھ کہہ دیتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے، وہ ایک چھو کردیتے ہیں تو بیماری جاتی رہتی ہے، وہ جس کام کے لیے تعویذ دیتے ہیں وہ کام مرضی کے موافق ہوجاتا ہے، وہ ایسی توجہ دیتے ہیں کہ آدمی لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔ ان تاثیروں سے کبھی دھوکا مت کھانا۔

7. اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ نہ کرتا ہو، بے جا بات سے روک دیتا ہو۔"

(ماخوذ از:بہشتی زیور حصہ ہفتم، ص:377، 378، ط : دارالاشاعت)

 لہذا جس پیر میں یہ علامت بدرجۂ اتم موجود ہو ں،ایسے پیر کی بات مرید بغیر تصدیق مان سکتا ہے، کیونکہ اس اعتماد کی بنیاد شریعت اور علم پر ہے، نہ کہ اندھی عقیدت پر، البتہ اگر ایسے پیر کی بھی کوئی بات شریعت کے خلاف ہو تو وہ ناقابل قبول ہوگی، کیونکہ پیر یا بزرگ معصوم نہیں ہوتے، صرف انبیاء علیہم السلام ہی معصوم ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عمر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية، فلا سمع عليه ولا طاعة".

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حاکم کی ہر حال میں  خواہ( پسند ہو یا ناپسند )فرماںبرداری کرے، جب تک اسے گناہ کے کام کا حکم نہ دیا جائے، اور اگر کسی معصیت کا حکم دیا جائے، تو پھر نہ اس کی بات سنی جائے گی اور نہ اس کی اطاعت کی جائے گی۔"

(سنن الترمذي، أبواب الجهاد، باب ما جاء لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، رقم الحديث: 1803، ج:3، ص:503، ط: دار الرسالة العالمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں