بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیداوار میں عشر اور نصف عشر اور عشر کی ادائیگی سے پہلے اخراجات منہا کرنے کا حکم


سوال

 میں کھیتی کرتا ہوں اور میرے ساتھ آدھے منافع پہ کسان بھی ہے،اب مثال کے لیے ایک گنے کے کھیت میں ہم نے مشترکہ کھاد وغیرہ کی مد میں 50000 مل کے خرچہ کیا،  جب فصل کٹائی کا ٹائم آیا تو مشترکہ 15000 کٹائی اور 20000 کرایہ لگا،  فصل کی رقم 250000 ٹوٹل بنی، جس میں سے کرایہ  کٹ کے ہمیں 230000 ملے اب اس میں سے کٹائی کی مزدوری 15000 ہمیں دینی ہے باقی 215000 بچ گئے، اس میں آدھا کسان کا ہے جو غیر مسلم ہے،  اب اس میں صرف مجھے کتنا عشر دینا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر عشری زمین کو  سال کے اکثر حصہ میں ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ نہ آتا ہو  یعنی قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے    تو اس میں عشر ( کل پیداوارکا دسواں حصہ یعنی  ٪10) واجب ہوتا هے، اور اگر  زمین کو  ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ آتا ہو  یعنی  اس  زمین کو  مصنوعی  پانی پہنچانے  کے آلات ووسائل (مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی  سے سیراب کی جائے تو اس میں نصفِ عشر ( کل پیداوار کا بیسواں حصہ  یعنی٪5) واجب ہوتا هے۔

 نیز   وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں  مثلاً زمین کو ہموار کرنے، ٹریکٹر  چلانے  ، مزدور کی اجرت    وغیرہ،   یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے  شرعاّ منہا نہیں کیے جاتے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جانا ضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  فصل کی  کٹائی  کا خرچہ عشر نکالنے سے پہلے منہا نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اگر کرایہ سے مراد    ایسا کرایہ ہو جو  زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ، کسی چیز میں لگا ہو، مثلاً ٹریکٹر کا کرایہ وغیرہ تو یہ  کرایہ  بھی منہا نہیں ہوگا، بلکہ سائل پر  اخراجات منہا کرنے سے پہلےاپنے   حصہ میں آنے والی پیداوار کا   عشر (دسواں حصہ)یا نصفِ عشر (بیسواں حصہ) دینا لازم ہوگا،  البتہ پیداوار کو کھیت سے منڈی لاکر فروخت کرنے کا جو خرچہ آتا ہے وہ خرچہ پیداوار کی  مالیت سے منہا کرکے عشر ادا کیاجائے گا۔

مثلاً  منڈی تک لے جانے کا کرایہ منہا کرنے کے بعد  پیداوار کی رقم 250000  روپے  ہوں تو اس میں سائل کے حصہ میں 125000 روپے آئے، اب اگر  مذکورہ زمین ایسی ہے    جس کو ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے  جس میں خرچہ نہیں  آتا ہو   تو اس کا عشر  یعنی 12500 روپے لازم ہوں گے، اور اگر  اس میں خرچہ آتا ہو تو بیسواں حصہ یعنی6250 روپے لازم ہوں گے۔

اگر کرایہ سے مراد  پیداوار کو منڈی / بازار تک فروخت کے لیے پہنچانے  کا کرایہ ہو تو اس صورت میں اس کرایہ کی رقم  کو عشر کی ادائیگی سے پہلے منہا کرنے کے بعد  سائل کے حصے  115000 روپے  کا عشر  11500 روپے اور نصفِ عشر   5750  روپے بنے گا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول".

(2/ 326، باب العشر، ط؛ سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة، وفي كتب الشافعية: أو سقاه بماء اشتراه، وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولو استويا فنصفه، وقيل: ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر (قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك، درر، قال في الفتح: يعني لايقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة، بل يجب العشر في الكل؛ لأنه عليه الصلاة والسلام حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة، ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحداً وهو العشر دائماً في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلى نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائماً العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعاً فعلمنا أنه لم يعتبر شرعاً عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلاً اهـ وتمامه فيه".

 (2 / 328، باب العشر، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا".

 (2 / 63، فصل فی صفة الواجب ، با ب زکاۃ الزرع والثمار ، ط: سعید)

الفتاویٰ التاتارخانیہ میں ہے:

"إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه".

(3/292،  الفصل السادس  فی التصرفات فیما یخرج من الارض، کتاب العشر، ط:  زکریا)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي المزارعة إن كان البذر من رب الأرض فعليه، ولو من العامل فعليهما بالحصة.

(قوله: وفي المزارعة إلخ) قال في النهر ولو دفع الأرض العشرية مزارعة أن البذر من قبل العامل فعلى رب الأرض في قياس قوله لفسادها وقالا في الزرع لصحتها، وقد اشتهر أن الفتوى على الصحة وإن من قبل رب الأرض كان إجماعا. اهـ. ومثله في الخانية والفتح.

والحاصل أن العشر عند الإمام على رب الأرض مطلقا وعندهما كذلك لو البذر منه ولو من العامل فعليهما وبه ظهر أن ما ذكره الشارح هو قولهما اقتصر عليه لما علمت من أن الفتوى على قولهما بصحة المزارعة فافهم، لكن ما ذكر من التفصيل يخالفه ما في البحر والمجتبى والمعراج والسراج والحقائق الظهيرية وغيرها من أن العشر على رب الأرض عنده عليهما عندهما من غير ذكر التفصيل وهو الظاهر لما في البدائع من أن المزارعة جائزة عندهما والعشر يجب في الخارج والخارج بينهما فيجب العشر عليهما اهـ 

 (2 / 335، باب العشر، ط:سعيد) 

وفيه أيضا:

"وبأن الملك غير شرط فيه بل الشرط ملك الخارج، فيجب في الأراضي الموقوفة لعموم قوله تعالى: {أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض[البقرة: 267] وقوله تعالى: {وآتوا حقه يوم حصاده[الأنعام: 141] وقوله صلى الله عليه وسلم: «ما سقت السماء ففيه العشر وما سقي بغرب أو دالية ففيه نصف العشر» ولأن العشر يجب في الخارج لا في الأرض، فكان ملك الأرض وعدمه سواء كما في البدائع."

(4/ 178، كتاب الجهاد، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں