بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیدائش کے دوسرے دن عقیقہ کرنے کا حکم


سوال

کیا بچے کا عقیقہ اس کی پیدائش کے دوسرے دن کیا جا سکتا ہے؟ اگر کر دیا گیا ہو تو کیا قبول ہوگا یا دوبارہ کرنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ بچے کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ جو  جانور ذبح کیا جاتا ہے،  اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں،عقیقہ کرنا مستحب ہے،اور اس کا مسنون وقت  یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، اگر ساتویں دن کسی وجہ سے نہ ہو سکے تو چودھویں (14)  دن ، ورنہ اکیسویں (21) دن کر لیا جائے، تاہم اس کے بعد بھی اگر عقیقہ کیا جائے تو عقیقہ کی سنت  ادا ہوجائے گی،اسی طرح ساتویں دن سے پہلے مثلاً دوسرے ، تیسرے دن اگر عقیقہ  کرلیا جائے تب بھی عقیقہ کی سنت  ادا  ہو جائے گی، لیکن مستحب وقت پر نہیں ہوگا۔

سنن ابی داؤد میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی منقول  ہے:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه أراه، عن جده، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة، فقال: "لايحب الله العقوق" كأنه كره الاسم، وقال: "من ولد له ولد فأحب أن ينسك عنه فلينسك: عن الغلام شاتان مكافئتان، و عن الجارية شاة."

(کتاب الاضاحی،باب فی العقیقۃ،ج:4،ص:463،ط:سعید)

اور سنن ترمذی میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی منقول ہے:

"عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع، ويسمى، ويحلق رأسه» حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.: هذا حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم حاد وعشرين، وقالوا: لا يجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية."

(ابواب الااضاحی،باب من العقیقۃ،ج:4،ص:101،ط:شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی-مصر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:336،ط:سعید)

اعلاء السنن میں ہے:

"أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع."

(17 /117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں