بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پچھلے سال کے حساب سے سامان تجارت کی زکوۃ ادا کرنا


سوال

اگر مال تجارت کسی عذر کی بنا پر حساب کرنا مشکل ہو تو پچھلے سال کے حساب کے مطابق زکوۃ ادا کر دیں تو درست ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مال تجارت کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے زکوۃ کا سال پورا ہونے کے وقت جس مقدار میں مال تجارت موجود ہو اس کا چالیسواں حصہ زکوۃ میں ادا کردیا جائے یا پھر اس موجو د مال کی موجودہ بازاری قیمت لگائی جائے اور اس قیمت کا چالیسواں حصہ زکوۃ میں ادا کردیا جائے لہذا صورت مسئولہ میں سائل کا گزشتہ سال کے حساب سے زکوۃ ادا کرنا درست نہیں  کیونکہ پچھلے سال اور اس  سال کے مال تجارت کی مقدار اور قیمت میں فرق ہوگا اور پچھلے سال کے اعتبار سے زکوۃادا کرنے کی صورت میں کمی کا اندیشہ رہے گا لہذا اس سال کا حساب کتاب کر کے زکوۃ ادا کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(واللازم)»مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا (أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب) الجملة صفة عرض وهو هنا ما ليس بنقد....من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكونبالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به؛ ولو بلغ بأحدهما نصابا دون الآخر تعين ما يبلغ به، ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير سراج (ربع عشر) خبر قوله اللازم."

(کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ المال ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۹۷،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز دفع القيمةفي زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح

(قوله: وجاز دفع القيمة) أي ولو مع وجود المنصوص عليه معراج، فلو أدى ثلاث شياه سمان عن أربع وسط أو بعض بنت لبون عن بنت مخاض جاز وتمامه في الفتح. ثم إن هذا مقيد بغير المثلي، فلا تعتبر القيمة في نصاب كيلي أو وزني، فإذا أدى أربعة مكاييل أو دراهم جيدة عن خمسة رديئة أو زيوف لا يجوز عند علمائنا الثلاثة إلا عن أربعة، وعليه كيل أو درهم آخر خلافا لزفر، وهذا إذا أدى من جنسه، وإلا فالمعتبر هو القيمة اتفاقا لتقوم الجودة في المال الربوي عند المقابلة بخلاف جنسه.ثم إن المعتبر عند محمد الأنفع للفقير من القدر والقيمة. وعندهما القدر."

(کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ الغنم ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۸۵،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں