بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پچھلے راستہ سے بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کا حکم


سوال

بہت سارے مسلم فرقے ہیں اور ان فرقوں میں کچھ فرقے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت کے پچھلے حصے میں سیکس کرنا جائز ہے اور قرآن مجید میں بھی ایسا وضاحت کے طور پر نہیں لکھا کہ پیچھے سے دخول جائز نہیں ، قرآن میں جو بھی لکھا ہے سب فرقے اپنے طریقے سے وضاحت دے رہے ہیں تو یہ حرام کیسے ہوا ؟

جواب

واضح رہے کہ اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلے حصہ میں دخول کرنے کے متعلق قرآن کریم میں اشارۃ اور احادیث میں صراحۃ ممانعت منقول ہے۔ قران کی آیت  " نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ﴿البقرة: ٢٢٣﴾(تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ،سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو)"، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ بیوی کی اس جانب دخول کیا جائے جو مقام کھیتی کا مقام ہے اور وہ آگے کی جانب ہے نہ کہ پچھلی جانب ۔ اس آیت کی یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے، لہذا پچھلے راستہ سے دخول کرنے کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے، احادیثِ مبارکہ میں صراحت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ہے کہ  اللہ تعالی حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا  ، تم اپنی بیویوں کی پچھلی جانب میں دخول مت کرو (حدیث ذیل میں مذکور ہے)۔ لہذا اس آیت مبارکہ  اور احادیثِ شریفہ کی روشنی میں یہ فعل حرام ہے اور اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، جو لوگ اس فعل کو جائز کہتے ہیں ان کا قول معتبر نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام. المرأة إذا انقطع حجابها الذي بين القبل والدبر لا يجوز للزوج أن يطأها إلا أن يعلم أنه يمكنه أن يأتيها في القبل من غير الوقوع في ‌الدبر، وإن شك فليس له أن يطأها كذا في الغرائب. والله أعلم."

(کتاب الکراہیۃ، باب التاسع ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۳۰، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"عن ابن عباس قال «أوحي إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -  نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ ﴿البقرة: ٢٢٣﴾ أقبل وأدبر واتق الدبر والحيضة» . رواه الترمذي، وأبو داود، وابن ماجه

(عن ابن عباس قال: أوحي إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -  نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ﴿البقرة: ٢٢٣﴾ أقبل: أي: جامع من جانب القبل (وأدبر) أي: أولج في القبل من جانب الدبر (واتق الدبر) أي: إيلاجه فيه قال الطيبي - رحمه الله -: تفسيرا لقوله تعالى جل جلاله {فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة: 223] فإن الحرث يدل على اتقاء الدبر (أنى شئتم) على إباحة الإقبال والإدبار والخطاب في التفسير خطاب عام وإن كل من يتأتى من الإقبال والإدبار فهو مأمور بهما (والحيضة) بكسر الحاء اسم من الحيض والحال التي يلزمها الحائض من التجنب كذا في النهاية، والمعنى اتق المجامعة في زمانها."

(کتاب النکاح باب المباشرۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۹۳، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وعن خزيمة بن ثابت أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إن الله لا يستحي من الحق لا تأتوا النساء في أدبارهن» . رواه أحمد، والترمذي، وابن ماجه، والدارمي

(لا تأتوا النساء في أدبارهن) وهذا في شأن النساء فكيف بالرجال: قال في شرح العقائد وفي استحلال اللواطة بامرأته لا يكفر على الأصح، قيل: لأنه مجتهد فيه، وفي تفسير المدارك عند قوله تعالى {وتذرون ما خلق لكم ربكم من أزواجكم} [الشعراء: 166] من تبيين لما خلق أو تبعيض والمراد بما خلق العضو المباح وكانوا يقولون ذلك بنسائهم وفيه دليل تحريم أدبار الزوجات والمملوكات ومن أجازه فقد أخطأ خطأ عظيما."

(کتاب النکاح باب المباشرۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۹۳، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں