ہمارے محلے میں ایک PCOوالا ہے ،جو نیٹ پیکج کے 260 روپے لیتا ہے، جب کہ باقی PCO والے 250 روپے میں وہی پیکج کرتے ہیں، اور اس PCOوالے نے لکھ کر بھی لگارکھا ہے کہ اس قیمت میں کروانا ہے تو کرواؤ، ورنہ آپ کی مرضی ہے،براہ ِ مہربانی راہ نمائی فرمادیں کہ اس کا یہ دس (10) روپے لینا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ ایزی لوڈ ، کارڈ ریچارج اور نیٹ پیکج لگانے کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، اور وہ جو کارڈ فروخت کرتے ہیں، یا ایزی لوڈ کرتے ہیں یا پیکیج لگاتے ہیں وہ کمپنی کے وکیل کی حیثیت سے کرتے ہیں، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے کمیشن کی صورت میں معاوضہ دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے ان کی طرف سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ؛ اس لیے ان کے لیے کمپنی کی طرف سے طے شدہ کمیشن کے علاوہ کسٹمر سے اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ PCO والےکا کمپنی کی طرف سے مقرر شدہ 250 والا نیٹ پیکج کرنے کے اضافی دس روپے لینا جائز نہیں ہے۔
مسئولہ صورت کی نظیر ’’امداد الفتاوی‘‘ میں ہے:
"اسٹامپ کو اس کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کرنا
سوال (۱۷۴۶) : قدیم ۳ / ۱۱۳- لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے لاتے ہیں، ان کو ایک روپے تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے جاتے ہیں یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سوا پندرہ آنہ پر مِلتا ہے، اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں ، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟
الجواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے اس عملہ کے مصارف اہلِ معاملات سے بدیں صورت لیے جاتے ہیں کہ ان ہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی؛ اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار ان ہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخِل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصِل کر لیتا ہے، اور اس تعجیلِ ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں ، اس لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا۔ فقط۔ ۲۴ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۹ ھ (تتمہ اولیٰ ص ۱۵۹)
( امداد الفتاوی جدید، ۷ / باب: جائز و ناجائز یا مکروہ معاملات بیع، ۶ / ۵۱۴، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100467
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن