بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پنشن كا غصب


سوال

میں ایک سرکاری ادارے کا ملازم تھا، میرے ادارے والے اپنے ملازم کے لیے کچھ فنڈ مختص کر تے ہیں ،پھر اس فنڈ کو ان کے بقول منافع بخش کاروبار میں لگا لیتے ہیں ،اور اس طرح ہمارے دیے ہوئے فنڈ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،پھر جب ملازم وہاں سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کو اس کی اصل رقم مع منافع کے پینشن کی صورت میں دی جاتی ہے ،اور اگر ملازمت کے دوران ملازم اس میں سے لینا چاہے تو لے بھی سکتا ہے،لیکن بعد میں وہ رقم پینشن دیتے وقت کاٹ لی جاتی ہے ،میں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی بیوی کے آپریشن کے لیے ایک لاکھ روپے فنڈ سے نکلوائے تھے،لیکن جب میں ریٹائرہونے لگا تو ادارے کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ شو نہیں ہوا،اس لیے مجھے میری پینشن بغیر کسی کٹوتی کے مکمل مل گئی،میں نے ناسمجھی میں ادارے کو نہیں بتایا، وہ پوری رقم لے لی اور اس پر جو نفع(سود)آتا تھا وہ بھی میں لینے لگا، لیکن اب مجھے اللہ نے سمجھ دی تو اب میں اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں ،اب میں وہ رقم ادارے میں واپس کرانا چاہتا ہوں،  لیکن اسی ادارے اسی شعبہ میں ادا کرنا ضروری ہے جو کہ ناممکن ہے،  یا حکومت کے کسی ادارے میں بھی جمع کرادی جائے؟ اور میں صرف اصل رقم واپس کروں یا اس پر ملنے والا نفع(سود)بھی جمع کراؤں۔

جواب

  صورت مسئو لہ میں ریٹائر منٹ کے وقت سائل کے لیے مذکورہ رقم (ایک لاکھ روپے ) وصول کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، سائل پر لازم ہے کہ مذکورہ رقم اس سے حاصل ہونے والا نفع اس ادارہ کو کسی بھی عنوان سے واپس کردے،اگر اسی ادارہ کو یا اس کے شعبہ کو واپس کرنا ممکن نہ ہوتو سائل اس رقم سے کوئی فرنیچر وغیرہ  یا کسی بھی کوئی سامان خریدکر ادارہ کو ہدیہ کہ کر واپس کردے، اس طرح سائل اپنے ذمے سے بری ہوجائے گا،نیز سائل اپنی غلطی اور گناہ پر توبہ واستغفار بھی کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

' والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه.'

(کتاب البیوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون."

(كتاب القطة، ج: 4، ص: 283، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ‌جهل ‌أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة."

(كتاب القطة، ج: 4، ص: 283، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجب رد عين المغصوب) ما لم يتغير تغيرا فاحشا مجتبى (في مكان غصبه) لتفاوت القيم باختلاف الأماكن (‌ويبرأ ‌بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء وكذا»لو أطعمه فأكله خلافا للشافعي زيلعي (أو) يجب رد (مثله إن هلك وهو مثلي وإن انقطع المثل) بأن لا يوجد في السوق الذي يباع فيه وإن كان يوجد في البيوت ابن كمال (فقيمته يوم الخصومة) أي وقت القضاء وعند أبي يوسف يوم الغصب وعند محمد يوم الانقطاع ورجحه قهستاني."

(كتاب الغصب، مطلب فيما لو هدم الحائط، ج: 6، ص: 182، ط: دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں