بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پے آڈر زائد قیمت پر فروخت کرنا


سوال

ایکسائز ڈیپارٹمنٹ  میں پے آڈر سیل ہوتے ہیں، یعنی رجسڑیشن کے دوران جس کی اماؤنٹ کم پڑتی ہے، وہ وہاں سے ہی تیار پے آڈر خرید لیتا ہے، جیسے 500 والا 700 میں، اور 1000 والا 1500 میں، سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی رقم سے تیار پے آڈر ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں  زائد قیمت پر فروخت کر سکتا ہوں؟

جواب

پے آڈر اصل قیمت سے زائد قیمت پر فروخت کرنا، سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس لیے کہ شرعاً  "سود" اس اضافے کو کہا جاتا ہے  جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز )  کے تبادلے میں بغیر عوض آئے اور عقد کے وقت مشروط ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں اصل قیمت سے زائد قیمت پر  پے آڈر کی خرید و فروخت  ناجائز و حرام ہوگی۔

النهر الفائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال.

(هو فضل مال) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة كالبيع بشرط فإنهم جعلوها من الربا وهذا أولى من قول بعضهم المقصر تعريف الربا المتبادر عند الإطلاق وذلك إنما هو رد الفضل (بلا عوض) خرج به ما سيأتي في الصرف من أنه لو باعه كر بر وشعير بضعفهما جاز بصرف الجنس إلى خلاف جنسه فضل قفيزي شعير على قفيز بر فإنه بعوض (في معاوضة مال) خرج به الهبة.

زاد في (الوقاية) مشروط لأحد المتعاقدين، لأنه لو شرط لغيرهما لا يكون من باب الربا، والأولى أن يقال في أحد البدلين لأن العاقد قد يكون وكيلًا وفضوليًّا والمعتبر كون الفضل للبائع أو المشتري."

( كتاب البيوع، باب الربا، ٣ / ٤٦٩،ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں