بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پتھر سے تراشے ہوئے جاندار کی تصویر والے مجسمے کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

  قیمتی پتھر سےتراشی ہوئی مختلف اشکال جو کہ افغانستان سے منگوائی جاتی ہیں،کسی مسلمان کے لیے یہ خریدکر کسی دوسرے مسلمان یا کسی انگریز غیرمسلم کوفروخت کرنےکا کیا حکم ہے؟

نوٹ: سائل نے سوال کے ساتھ ایک تصویر  منسلک  کی ہے، جو واضح طور پر جان دار کی تصویر ہے۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں کہ وہ پتھر سے تراشے ہوئےمذکورہ تصویری مجسمہ کو خریدے یا خرید کر  کسی مسلم یا غیر مسلم کو فروخت کرے، بلکہ ایسے تصویری مجسمے گھروں میں رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون»."

(مشكاة المصابيح، باب التصاویر، ج:2، ص:385 ط: قدیمي)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے۔"

(مظاہر حق جدید(4/230)  ط: دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"پلاسٹک کی گڑیاں اور تصویریں بیچنا

سوال: زید نماز اور زکوۃ کا پابند ہے، زید حج بیت اللہ میں تھا،اس کے بعض ذمہ داروں نے دکان پر کچھ تصویریں، ہولی کی پچکاریاں،چڑیاں،گڑیاں پلاسٹک وغیرہ کی منگوالیں اور دوسرے سامان کے ساتھ اس کو بھی منگوالیا اور فروخت کرنے لگے، زید کہتا ہے کہ ان کو فروخت کرنے سے پرہیز لازم ہے، البتہ مہر بند سامان پر اس قدر شدت نہیں برتی جاسکتی کہ وہ عموم بلویٰ میں شامل ہے، اب زید کو اپنا کاروبار کس طرح جاری رکھنا چاہیے؟ تاکہ وہ کھلی ہوئی قباحت سے بچے اور سببِ معاش کا طریقہ حلال اور طیب ہوسکے۔

الجواب حامداً و مصلیا:

زید کا یہ خیال بہت مبارک ہے، اس کو اپنے سابق طور پر رہنا چاہیے،نامناسب چیزوں کی تجارت سے پرہیز کرے،خواہ وہ مکروہ کے درجہ میں ہوں یا حرام ہوں، مہر بندسامان پر کسی چیز کی تصویر ہوتو اس تصویر کی خریدوفروخت مقصود نہیں ہوتی،تو وہ محض مارک ہےلہذا اس کی بیع درست ہوگی، بخلاف گڑیاں اور جاندار کی تصویر کے کھلونے کہ وہ مقصود ہوتی ہے،فرق ظاہر ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الصورۃ والملاھی، ج:24، ص:406، ط:ادارۃ الفاروق)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

"تصویرکشی اور تصویر سازی کسی جان دار کی کسی حال میں جائز نہیں ہے۔"

(جواہر الفقہ (جدید)،تصویر کے شرعی احکام، ج:7، ص:231، ط:مکتبہ دارالعلوم)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم ‌تصوير ‌صورة ‌الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم."

(كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة، ج:22، ص:70، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"اشترى ثورا أو فرسا من خزف) لأجل (استئناس الصبي لا يصح و) لا قيمة له ."

(باب المتفرقات من أبوابها، ج:5، ص:226، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں