بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پتھر اٹھا کر ’’ایک،دو،تین‘‘ الفاظ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 میرا اپنی بیوی کے ساتھ گزشتہ ستائیس رمضان المبارک کو گھر میں جھگڑا ہوگیا تھا، وہ بھی زبان درازی کرنے لگی، اتنے اس کا باپ آگیا ،تین دن پہلے بھی لڑائی ہوئی تھی، تو میں نے اس کے باپ کو سب بتایا ،تو اس نے بیٹی کو سمجھانے کے بجائے مجھے کہا کہ اس کو چھوڑ دو ،یہ کہہ کر وہ بھی نکل گیااور میں بھی فوراً گھر سے نکل گیا ،کیوں کہ مجھے ان پر شدید غصہ آ رہا تھا،اس وقت میرا دل بار بار اس کو طلاق دینے کا کہ رہا تھا،اتنے میں میرے چھوٹے ماموں اور ایک ماموں زاد بھائی آئےاور مجھےساتھ لے کر گھر سے باہر لے گئے، میں  اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کے بعد چپ ہوگیا،انہوں نے پوچھا تم نے طلاق دیا ہے کیا؟تو میں نے غصے میں کہا:’’ ہاں ‘‘لیکن اس وقت تک میں نے زبان سے اس طرح کا لفظ نہیں نکالا تھا، تو ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے سامنے طلاق دو، تو   میں نے نیت ایک طلاق کی کی تھی، اور تین پتھر اٹھا کر کہا:’’ ایک ،دو ،تین ‘‘،اس کے والد اور والدہ کا نام لے کر کہا:’’تلاک ہے‘‘  اور دل میں بھی اس کے معنی اس طرح آیا کہ محبت کے ساتھ آ کے مل بیٹھ ،اور اس وقت بیوی کا خیال یا تصور بھی نہیں کیا،اس وقت اس کی  بڑی بہن کا خیال دل میں آیا،اور وہ اس لیے کہ جب  جھگڑا ہوتا تھا تومیری بیوی  اکثر اس کا نام لیتی تھی، کہ وہ یہ کہتی ہے،  اس کے شوہر ایسے ہیں، میں نے  بعد میں عدت کے اندر رجوع بھی کیا ہے، کیوں کہ نیت ایک کی تھی، اب ہم بہت پریشان ہیں ،ہمارے تین بچے ہیں، ہماری  شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے بیان  کے مطابق جب سائل کے چھوٹے ماموں اور ماموں زاد بھائی نے سائل سے پوچھا کہ ’’تم نے طلاق دیا ہے کیا؟،تو اس کے جواب میں جب سائل نے کہا کہ ’’ہاں ‘‘،تو اس طلاق کے اقرار سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی،اگرچہ سائل نے  اس سے پہلے واقعتاً طلاق کے الفاظ زبان سے نہیں کہے تھے،اس کے بعد جب سائل نے تین پتھر اٹھا کر یہ کہا کہ ’’ایک ،دو ،تین‘‘اور اس کے ساتھ  بیوی کے کے والد اور والدہ کا نام لے کر کہا کہ ’’تلاک ہے‘‘،تواس لفظ سے  سائل کی بیوی  پر دوسری طلاق رجعی واقع ہوگئی  ،اور سائل کو عدت میں رجوع کا حق حاصل تھا،نیز  ’’ایک ،دو،تین‘‘ کے الفاظ لغو شمار ہوں گے۔

پھر اس کے بعد سائل کے بیان جب سائل نے اپنی بیوی سے عدت کے دوران رجوع کرلیا تھا ،تو ایسی صورت میں اب سائل کا نکاح برقرار ہے ،البتہ آئندہ کے لیے سائل کو صرف ایک طلاق کاحق حاصل ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء."

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:264،ط:دار الكتاب الإسلامي)

الدرالمختار میں ہے ـ:

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ."

(کتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،ج:3،ص:249،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عند ذكر العدد، و عند عدمه الوقوع بالصيغة"

"(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متي قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد ... الخ."

( کتاب الطلاق،مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به، ج:3،ص:287، ط: سعيد)

مجمع الانھر میں ہے:

"وشرعا (هي استدامة النكاح القائم) أي طلب دوام النكاح القائم على ما كان ما دامت (في العدة) ؛ لأن الملك باق في العدة زائل بعد انقضائها."

(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،ج:1،ص:432،ط؛دار إحياء التراث العربي، بيروت)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’اگر زید نے واقعتاً طلاق کی جھوٹی خبر دی تھی،تو دیا نۃ طلاق واقع نہیں ہوئی،لیکن قضاء ہوجائے گی،یعنی اگر معاملہ کسی حاکم یا عدالت یا پنچائیت تک پہنچا،تو وقوع طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا،چوں کہ سینکڑوں مرتبہ طلاق دینے کا اقرار کیا ہے،اس لیے طلاق مغلظہ کا حکم دیا جائے گا۔

اگر جھوٹی خبر دینے سے قبل کسی کو گواہ بنالیتا کہ میں اس طرح کی جھوٹی خبر دوں گا،تاکہ والد صاحب ناراض نہ ہوں توقضاء بھی طلاق کا حکم نہ ہوتا۔‘‘ 

(کتاب الطلاق،ج:5،ص:160،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں