بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پتھر دینے سے طلاق کا حکم


سوال

 کچھ عرصہ پہلے میرے اور میرے سسرال کے خاندان کے درمیان بہت زیادہ لڑائی ہوئی ،جس کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو اس کے باپ کے گھر بھیج دیا،میں نے زبان سے طلاق نہیں دی اور نہ ہی ہمارے رواج کے مطابق تین پتھربیوی کو  دیے( ہمارے رواج میں جب بیوی کو تین طلاق دی جاتی ہیں تو اسے زبان سے کہنے کے ساتھ ساتھ تین پتھر بھی دیے جاتے ہیں )،بعد میں جب میں بیوی کو ا س کے باپ کے گھر سے لینے گیا تو بیوی کے والد نے لڑکی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ لڑکے نے اس کو تین طلاق دی ہے،جب اس سے گواہ کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ گواہ لڑکے کے چچا ہیں اور میرے چچا نے اس بات کا انکار کیااور کہا  کہ ہم نے نہ دیکھا ہےاور نہ سناہے کہ لڑکے نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو،اس پر جرگہ نے میرے چچاؤں پر قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کو کہا،لیکن میرے چچاؤں نے قسم کھانے سے انکار کیاکہ ہماری بے عزتی ہوئی ہے،بالآخر میری غیرموجودگی میں یہ طے ہوا تھا کہ چار مہینے کے بعد لڑکی کا باپ لڑکے والوں کو تین لاکھ روپے دے گااور لڑکا اس موقع پر پتھر دے گا،جب چارمہینے کے بعد وقت آیا تو میں نے پتھر دینے سے انکار کیا کہ جب میں نے طلاق نہیں دی تو میں کیوں دوں؟میرے چچا نے مجھے کہا کہ اگر تم تین پتھر نہیں دوگے تو مزید ہماری لڑائی ہوسکتی ہے،پھر میرے چچا نے مجھے تین پتھر جمع کرکے دیے اور کہا کہ لڑکی کے چچا کو دے دو،میں نے ان کی تسلی کے لیے وہ تین  پتھر دیے،مگر پتھر دیتے وقت میں نے نہ  طلاق کے صریح الفاظ زبان سے ادا کیا اور نہ ہی کوئی کنائی الفاظ  جس سے طلاق واقع ہو،بلکہ دل میں کہا کہ یااللہ تو دیکھ رہا ہے کہ میں لڑائی کی وجہ سے یہ پتھر دینے میں مجبور ہوں، اور پتھر دیتے وقت لڑکی بھی سامنے موجود نہیں تھی۔اب سوال یہ ہے کہ تین پتھر دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟ جب کہ میں نے کسی قسم کے الفاظ ادا نہیں کیے جو طلاق کے لیے مخصوص ہوں یا ان میں طلاق کا احتمال ہو اور میں اپنی بیوی کو واپس لانا چاہتا ہوں،اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق واقع کرنے کے لیےایسے الفاظ کا استعمال ضروری ہے جو صراحۃً  یا کنایۃً طلاق پر دلالت کرتے ہوں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً سائل نےلڑکی کے چچا کو پتھر دیتے وقت طلاق کے الفاظ زبان سے نہیں بولے، تو اس سے اس کی (سائل) کی بیوی پرکوئی  طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور برقرار ہے،سائل اپنی بیوی کو اپنے گھر لاسکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره".

(کتاب الطلاق،230/3،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں