بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کے نکاح کے لیے وظیفہ پڑھنا


سوال

 اگر کوئی آپ کو  پسند آجائے اور اس کو  نکاح کا پیغام بھیج  دیں، وہ آپ کو منع کر دے  تو  کیا اس صورت میں اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے کوئی وظیفہ پڑھنا جائز ہے؟

جواب

 کسی کو  رشتے  کے لیے راضی کرنے کے لیے ایسا تعویذ یا عمل  کرنا جس  سے دوسرا شخص مسخر ہوجائے  اور اس کی عقل ماؤف ہوجائے اور اس کو فیصلہ کی سمجھ نہ رہے، اس طرح تعویذ یا وظیفہ  کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر تعویذ یا وظیفہ  شرکیہ کلمات پر مشتمل ہو یا اس میں غیر اللہ سے مدد مانگی گئی ہو تو معاملہ کفر تک پہنچ جاتا ہے۔

ہاں اگر  رشتے کے لیے محبت پیدا کرنے کے لیے  آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل وظیفہ پڑھا جائے  تو اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس عمل میں کسی بھی خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ ہو اور مسخر کرنا مقصود نہ ہو۔

بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہر آزاد عاقل بالغ انسان (مرد و عورت) کو اپنے نکاح میں آزاد رکھا ہے، اور اسے اختیار دیا ہے کہ (شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے) اپنے لیے  جو چاہے رشتہ قبول کرے، اور جسے چاہے رد کرے، اس لیے کسی جگہ سے رشتے کا انکار ہوجائے تو اسے اپنے لیے بھلائی پر محمول کرکے کسی دوسری جگہ رشتہ تلاش کرلینا چاہیے، اور رشتے کے انتخاب میں وہی معیار مدنظر رکھے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے،  آپ  ﷺ کا ارشادِ گرامی قدر ہے:

"عورت سے چار باتوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتاہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے۔ (2) اس کے جمال کی بنیاد پر۔ (3) اس کے حسب و نسب کی بنا پر۔ (4)اس کی دین داری کی بنیاد پر؛ لہٰذا اے مخاطب! دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو!"

آپ کو جو جگہ پسند ہے، وہاں اگر دین داری کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مصالح بحسن و خوبی حاصل کیے جاسکتے ہیں تو اس جگہ نکاح کے لیے کوشش کیجیے، اور اگر وہاں مصالحِ زندگی فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو صرف پسند کی بنیاد پر شادی کرنا عقل مندی نہیں، ساری زندگی کا روگ ہے، انسان کی پسند اور خواہش تبدیل بھی ہوجاتی ہے، اور اسے قابو رکھ کر زندگی گزارنا ہی کمال ہے۔

البتہ   اگر مذکورہ جگہ نکاح میں آپ اپنی دینی اور دنیاوی مصلحت سمجھتے ہیں تو پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیے، استخارہ کی نماز اور دعا مستقل پڑھتے رہیے، اور والدین یا خاندان کے بڑوں کے ذریعے اس جگہ رشتہ بھیجوائیے اور اپنے رویے میں نرمی رکھیے۔

کسی بھی جائز مقصد کے حصول کے لیے  دعا سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی وظیفہ نہیں ہے، خواہ وہ ایک مرتبہ ہی کی جائے، قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاءِ کرام علیہم السلام کے شدید احوال کے مواقع پر ان کی دعاؤں کا ہی ذکر فرمایا ہے، ان کے وظائف پڑھنے کا ذکر نہیں فرمایا، (گو درست کلمات پر مشتمل وظیفہ پڑھنا جائز ہے، بلکہ اس کی اصل ثابت بھی ہے)، تاہم ایسا نہیں ہوا کہ  انبیاءِ کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں نے خاص تعداد میں وظائف پڑھے ہوں یا وظیفہ  پڑھ کر دعا کی ہو ،  پھر پریشانی ٹلی ہو، بلکہ دل کی گہرائی سے جو دعا نکلتی ہے وہ  سب سے زیادہ پر اثر ہوتی ہے، اس لیے   اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے اس سے دعا کی جائے، پانچ وقت کی نمازوں اور دیگر فرائض کے اہتمام کے ساتھ ساتھ  اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا واستخارہ جاری رکھیں،  اور  "یَا وَدُودُ "  کثرت سے پڑھیں۔    

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 429):

"قال في الخانية: امرأة تصنع آيات التعويذ ليحبها زوجها بعد ما كان يبغضها ذكر في الجامع الصغير: أن ذلك حرام ولا يحل اهـ وذكر ابن وهبان في توجيهه: أنه ضرب من السحر والسحر حرام اهـ ط ومقتضاة أنه ليس مجرد كتابة آيات، بل فيه شيء زائد قال الزيلعي: وعن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - أنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الرقى والتمائم والتولة شرك» رواه أبو داود وابن ماجه والتولة أي بوزن عنبة ضرب من السحر قال الأصمعي: هو تحبيب المرأة إلى زوجها، وعن «عروة بن مالك - رضي الله عنه - أنه قال: كنا في الجاهلية نرقي فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» رواه مسلم وأبو داود اهـ وتمامه فيه وقدمنا شيئا من ذلك قبيل فصل النظر وبه اندفع تنظير ابن الشحنة في كون التعويذ ضربا من السحر".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں