بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پسندیدہ شخص سے نکاح کرنا


سوال

 اگر کسی لڑکی لڑکے کا تعلق آپس میں رہا ہو اور پھر لڑکی دینی پڑھائی کی طرف آگئی ہو اور لڑکے کا نکاح و شادی وغیرہ ہوگئی اس کے بعد بھی کچھ عرصے بعد ان کا رابطہ ہوگیا ہو دوبارہ اور پھر بات چیت وغیرہ اس کے بعدکچھ عرصہ گزر جاۓ اور اب لڑکی کے گھر والوں کو شادی کی فکر ہے عمر بھی ہورہی  ہےتو اب اگر اس شادی شدہ مرد سے اس کی شادی ہو وہ ٹھیک ہے یا کہیں اور ہوجاۓ کیونکہ ان کا تعلق رہا اور ایک ہی خاندان ہے اس کے 3بچے ہیں تو اب آیا وہ مرد گھر والوں کو منانے کے باوجود ان کے نہ ماننے پر خود سے شادی کرلے لڑکی کے والد سے بات کرکے اور کچھ مسائل بھی ہوں گے تو وہ صحیح ہے یا لڑکی کہیں اور شادی کرلے؟

جواب

شادی سے پہلے تو لڑکا لڑکی کا آپس میں رابطہ رکھنا اور بلا ضرورت بات چیت کرنا یا ملنا ملانا وغیرہ  شرعًا  جائز نہیں ہے، البتہ اگرلڑکا، لڑکی آپس  میں  نکاح  کرنا چاہتے ہیں تو لڑکا  اپنے گھر والوں  کو اعتماد میں لے کر لڑکی کے گھر والوں کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کرسکتا ہے ،یہی مہذب طریقہ ہے،باقی مرد کے لیے ایک وقت میں چار نکاح رکھنے کی شرعا  اجازت ہے،بشرط یہ ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان رہن سہن، نان و نفقہ اور  رات گزارنے میں عدل و انصاف اور برابری کرے،البتہ  اس کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ضروری نہیں ہے ،لیکن کسی ایک بیوی کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا شرعاً ناجائز ہے اور احادیث میں اس کی بہت سخت وعید آئی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا.

يستحب للمرأة ‌تفويض ‌أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة بحر."

(کتاب النکاح،باب الولی،ج3،ص55۔56،ط؛سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتۃ میں ہے:

"‌‌ثانيا ـ معنى الخطبة: الخطبة: هي إظهار الرغبة في الزواج بامرأة معينة، وإعلام المرأة وليها بذلك. وقد يتم هذا الإعلام مباشرة من الخاطب، أو بواسطة أهله.

فإن وافقت المخطوبة أو أهلها، فقد تمت الخطبة بينهما، وترتبت عليها أحكامها وآثارها الشرعية التي سأذكرها.

‌‌رابعا ـ أنواع الخطبة: الخطبة إما أن تكون بإبداء الرغبة فيه صراحة، كأن يقول الخاطب: أريد الزواج من فلانة، وإما أن تكون مفهومة ضمنا أو بالتعريض والقرائن، بمخاطبة المرأة مباشرة، كأن يقول لها: إنك جديرة بالزواج، أو يسعد بك صاحب الحظ، أو أبحث عن فتاة لائقة مثلك، ونحوها."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية،‌‌الباب الأول: الزواج وآثاره،‌‌الفصل الأول: مقدمات الزواج،ج9،ص6492،دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر."

(فصل فی المحرمات،ج3،ص48،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں