بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی اور چھپ کر نکاح کرنے کا حکم


سوال

مجھے ایک لڑکی پسند ہے اور وہ بھی مجھے پسند کرتی  ہے ہم دونوں یہ چاہتے  ہیں کہ ہم گناہ سے بچ جائیں اور چپ چاپ اکیلے میں ہم دونوں نکاح کریں،  کیا یہ درست ہے یا نہیں ، اور پسند کی شادی کا کیا حکم ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں نامحرم لڑکے کا لڑکی سے اور لڑکی کا لڑکے سے تعلق اور محبت  جائز نہیں ہے، یہ شیطان کا وار ہوتا ہے،  اس کی ابتدا  اپنے اختیار سے ہوتی ہے، اسی لیے قرآن مجید میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ نامحرموں کو دیکھنے سے اپنے نظر جھکالیں، اور احادیثِ  مبارکہ میں جا بجا نظروں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اور نظروں کو شیطان کے تیروں میں سے کہا گیا ہے، اور  بد نظری کو آنکھوں کا  زنا کہا گیا ہے، غرض یہ ہے کہ شریعت نامحرم سے تعلقات کی بالکل اجازت نہیں دیتی اور  اس نے اس کے سدباب کے لیے حفاظتی تدابیر کا بھی حکم دیا ہے۔

اور عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجتًا ایسی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں اور علیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اور خاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنے بڑوں پراعتماد کریں، ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

نیز  شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی سی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا خدائی نعمت کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے پسند کی شادی کا  فیصلہ بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتا ہے، لہذا والدین و خاندان سے چھپ کر شادی کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے جس سے گریز کرنا چاہیے۔

   نکاح کے صحیح ہونے کی بنیادی شرائط یہ ہیں کہ مرد و عورت خود یا ان کے وکیل  نکاح کی مجلس  میں  شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا  ایجاب وقبول کرلیں،  مثلا عورت کہے کہ : ”میں نے  اپنے آپ کو اتنے مہر پر تمہارے نکاح میں دے دیا“ اور مرد کہے کہ : ”میں نے مذکورہ مہر پر تمہیں اپنے نکاح میں قبول کرلیا“، اور  مرد اور عورت یا ان کے وکیل کے اس ایجاب وقبول  کو  دو مسلمان  عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اسی مجلس میں سن لیں۔

حاصل یہ ہے کہ  نکاح کی مجلس میں ایجاب قبول کا ہونا اور اس کو شرعی گواہوں کا اسی مجلس میں سننا نکاح کی بنیادی شرائط ہیں، نیز  نکاح میں مہر کا ہونا بھی ضروری ہے، البتہ اگر مجلس نکاح میں مہر متعین نہ ہو ا ہو تب بھی  نکاح ہوجائے گا اور مہر ذمے  میں لازم ہوگا۔

لہٰذا اگر لڑکا اور لڑکی آپس میں چھپ کر اکیلے بغیر گواہوں کے نکاح کریں تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا اور اگر گواہان موجود ہوں تو نکاح منعقد ہوجاۓ گا لیکن  شریعتِ مطہرہ میں گواہوں کی موجودگی میں اعلانیہ نکاح کرنے کا حکم ہے، اسی وجہ سےمسجد میں نکاح کرنا اور  ایسے وقت نکاح کرنا پسندیدہ ہے کہ جب مجمع زیادہ ہو، مثلاً جمعہ کے دن پسندیدہ ہے اور چھپ چھپا کر نکاح کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے،البتہ والد کو بھی چاہیے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کی رائے کا احترام کریں اور ایسا رویہ ہر گز اختیار نہ کریں کہ اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔

لہٰذا سائل کو چاہیے کہ وہ خفیہ طورپر  اکیلے  نکاح نہ کرے، بلکہ خاندان کے بزرگوں کے توسط رشتے کی بات کرے، اور مذکورہ لڑکی کو بھی چاہیے کہ وہ خفیہ رابطہ رکھنے کے بجائے اپنی والدہ یا خاندان کی کسی نیک سمجھ دار خاتون کے ذریعے والدین کو رشتے پر آمادہ کرے، اگر بڑے راضی ہوں تو جلد رشتہ کرلیا جائے، بصورتِ دیگر سائل اس لڑکی سے رابطہ و تعلق ختم کرلے ۔

نیز پسند کی شادی کرنا جائز ہے ،البتہ  پسند کی بنیاد اور معیار وہ ہونا چاہیے جو شرعًا مطلوب ہے ،احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتے کے انتخاب میں مال، خوب صورتی، حسب ونسب، اور دینداری میں سےدین داری کو ترجیح دینا چاہیے،

مشکوٰۃ شریف  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول: اس کا مال دار ہونا۔  دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا۔ سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا۔  چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو! خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ!

(کتاب النکاح ، الفصل الاول،ص:267،ط:قدیمی کراچی)

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مال دار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، بعض لوگ اچھے حسب ونسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے، اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں؛ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لیے پسند کرے؛ کیوں کہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔

"خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ"، ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت وخواری اور ہلاکت کی بددعا کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہاں اس جملے سے یہ بد دعا مراد نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔ 

(مستفاد از مظاہر حق)

 اس کے ساتھ  ساتھ شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، والدین اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں،  اس سلسلے میں والدین کی طرف سے دباؤ، اعتراض اورناراضی کا اظہار کرنا درست نہیں۔ ہاں خاندانی کفاءت اور برابری نہ ہونے کی صورت میں والدین کو اعتراض اور ناراضی کا حق شریعت کی طرف سے حاصل ہے،اسی طرح بچے بھی  ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں؛ اس لیے کہ جب اولاد اپنی مرضی سے کسی جگہ شادی کرتے ہیں اور اس میں شرعی احکام اور والدین کی رضامندی کی رعایت نہیں رکھتے تو عمومًا یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسی شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں ، اس طرح کی  شادی میں  لڑکا اور لڑکی کے وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجتًا ایسی  شادیاں  ناکام ہوجاتی ہیں اور علیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ  پرکھ کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائیدارثابت ہوتے ہیں۔  اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ (وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر۔

(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح.‘‘

(‌‌كتاب النكاح، ج: 3، ص: 9، ط: سعید)

وفيه أيضًا 

" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معًا)" .

(كتاب النكاح، ج: 3، ص: 21، ط: سعيد)

  فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں