بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی کے لیے وظیفہ


سوال

میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں، میں اس سے نکاح کا خواہشمند ہوں مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ اس کے دل میں میری محبت پیدا ہو جائے،  کیوں کہ وہ لڑکی راضی ہوگی تو اس کے گھر والے راضی ہوں گے، اور وہ لڑکی راضی نہ ہو تو اس کے گھر والے بھی راضی نہیں ہوں گے،  اس لیے مجھے کوئی مجرب عمل بتائیں ، اس لیے کہ  میرے گھر والوں نے کہا ہے کہ ہم بات نہیں کریں گے،  اگر وہ لڑکی راضی ہوگی تو ہم تمہاری شادی وہیں کر دیں گے،  اور پھر ہم بھی راضی ہوں گے ، مہربانی فرما کر مجھے کوئی مجرب عمل بتائیں یا کوئی قرآنی آیات بتائیں جس سے وہ لڑکی مجھ سے نکاح کے لیے راضی ہوجائے۔ یہ رشتہ مکمل دین کی بنیاد پر مجھے پسند ہے کیوں کہ میں اور وہ لڑکی دونوں قرآن کریم کے حافظ ہیں،  اور ہر سال مسلسل مصلیٰ سنا رہے ہیں،  ہمارے رشتے کے حق میں دعاء بھی فرمائیں،  کیوں کہ اس رشتہ کے ہونے سے ہم دونوں کو قرآن پاک  پختہ یاد رکھنے میں بھی مدد ملے گی، اگر میرا رشتہ یہاں نہ ہوا تو پھر میرا رشتہ کسی حافظہ سے نہیں ہوگا اور میرا قرآن تب ہی محفوظ رہے گا جب میرا رشتہ اس حافظہ کے ساتھ ہوگا، محترم براہ کرم مجھے کو وظائف بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی نا محرم لڑکی سے تعلقات رکھنا  نہایت قبیح اور ناجائز فعل ہے، خواہ یہ تعلق کسی  بھی نیک مقصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ صورتِ مسئولہ میں سائل  مذکورہ  لڑکی سے نکاح کرنے کی وجہ قرآن کریم کی پختگی کو بیان کررہاہے، تو یاد رہے کہ ایسے دینی مقاصد کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کے فتنے میں مبتلا کرنا بھی  شیطانی چال ہے، اور قرآن کریم کو یاد رکھنے کے لیے معین لڑکی سے شادی کو لازم سمجھنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ بہت سے حفاظِ کرام اس کے بغیر بھی قرآن کریم کو پختہ یاد کیے ہوئے ہیں، البتہ اگر سائل  اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہو، اور وہ لڑکی کسی کے نکاح میں نہ ہو  تو  ایسی صورت میں سائل اپنے والدین کو راضی کرکے نکاح کا پیغام بھجوا سکتاہے، اگرو الدین راضی نہ ہوں اور اس جگہ رشتہ کو مناسب نہ سمجھیں تو پھروالدین کو مجبور نہ کرے،اللہ تعالیٰ سے بذریعہ دعا  اس لڑکی کو اپنے نکاح کے لیے طلب کرنا درست ہے،  لیکن ہر وقت اس نامحرم لڑکی کو تصور میں لانا، اور دل کو اس میں مشغول رکھنا، اور نہ ملنے پر غمزدہ اور رنجیدہ رہنا درست نہیں ہے،اور اگر سائل نے اب تک کسی طور پر اس سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں تو سائل فوراً ان تعلقات کو ختم کرکے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے۔

تفسیرِ ابنِ کثیر میں ہے:

"ثم إنه تعالى أرشد إلى دعائه بعد كثرة ذكره فإنه مظنة الإجابة، وذم من لا يسأله إلا في أمر دنياه وهو معرض عن أخراه ......فقال: ومنهم من يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار فجمعت هذه الدعوة كل خير في الدنيا وصرفت كل شر، فإن الحسنة في الدنيا تشمل كل مطلوب دنيوي من عافية، ودار رحبة، وزوجة حسنة، ورزق واسع، وعلم نافع، وعمل صالح، ومركب هنيء، وثناء جميل إلى غير ذلك مما اشتملت عليه عبارات المفسرين، ولا منافاة بينها، فإنها كلها مندرجة في الحسنة في الدنيا، وأما الحسنة في الآخرة، فأعلى ذلك دخول الجنة وتوابعه من الأمن من الفزع الأكبر في العرصات، وتيسير الحساب وغير ذلك من أمور الآخرة الصالحة، وأما النجاة من النار فهو يقتضي تيسير أسبابه في الدنيا من اجتناب المحارم والآثام وترك الشبهات والحرام."

(سورة البقرة، 416/1، ط: دار الكتب العلمية)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں