بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی کے لیے راہ نمائی


سوال

مجھے کوئی پسند ہے اور مجھے ان سے شادی کرنی ہے، لیکن وہ نہیں مان رہی تو میں کیا کروں کہ ان سے شادی ہوجائے؟

جواب

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی قدر ہے:

عورت سے چار باتوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتاہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے۔ (2) اس کے جمال کی بنیاد پر۔ (3) اس کے حسب و نسب کی بنا پر۔ (4)اس کی دین داری کی بنیاد پر؛ لہٰذا اے مخاطب! دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو!

آپ کو جو جگہ پسند ہے، وہاں اگر دین داری کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مصالح بحسن و خوبی حاصل کیے جاسکتے ہیں تو اس جگہ پیغام بھیجنے کی کوشش کیجیے، اور اگر وہاں مصالحِ زندگی فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو صرف پسند کی بنیاد پر شادی کرنا عقل مندی نہیں، ساری زندگی کا روگ ہے، انسان کی پسند اور خواہش تبدیل بھی ہوجاتی ہے، اور اسے قابو رکھ کر زندگی گزارنا ہی کمال ہے، عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اوررشتوں کی جانچ پرکھ کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائیدارثابت ہوتے ہیں۔  اوربالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

البتہ عاقل بالغ مرد اورعورت کو شریعت نے یہ حق دیاہے کہ  اپنی پسند اورمرضی سے نکاح کرے ؛ اس لیے والدین  کو چاہیے کہ وہ اولاد کی چاہت معلوم کرکے اس کا لحاظ رکھیں؛ اس سلسلے میں والدین کی طرف سے دباؤ، اعتراض اورناراضگی کا اظہارکرنادرست نہیں۔ ہاں خاندانی کفاءت اوربرابری نہ ہونے کی صورت میں والدین کواعتراض اورناراضی کا حق شریعت کی طرف سےحاصل ہے۔

بہرحال اگر مذکورہ جگہ نکاح میں آپ اپنی دینی اور دنیاوی مصلحت سمجھتے ہیں تو پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیے، استخارہ کی نماز اور دعا مستقل پڑھتے رہیے، اور والدین یا خاندان کے بڑوں کے ذریعے اس جگہ رشتہ بھیجوائیے اور اپنے رویے میں نرمی رکھیے۔

دعا سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی وظیفہ نہیں ہے، قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاءِ کرام علیہم السلام کے شدید احوال کے مواقع پر ان کی دعاؤں کا ہی ذکر فرمایا ہے، ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے خاص تعداد میں وظیفہ پڑھ کر دعا کی ہو پھر پریشانی ٹلی ہو، بلکہ دل کی گہرائی سے جو دعا نکلتی ہے وہ سب سے زیادہ پر اثر ہوتی ہے، دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہارون علیہ السلام کو رسول بنایا، دعا ہی کے نتیجے میں قتل کے ارادے سے آنے والے عمر بن خطاب کو ایمان کی دولت نصیب فرماکر فاروقِ اعظم بنادیا۔

الغرض پانچ وقت کی نمازوں اور دیگر فرائض کے اہتمام کے ساتھ ساتھ  اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا واستخارہ جاری رکھیں،  اور  "یَا وَدُودُ "  کثرت سے پڑھیں۔    فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں