بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی کرنے کا حکم


سوال

میری ایک سہیلی ہے، وہ کسی کو پسند کرتی ہےاور جس لڑکے کو پسند کرتی ہے، وہ  لڑکا بھی اچھا ہے لیکن لڑکی کے گھر والے زبردستی اس کی شادی کسی اور سے کرانا چاہتے ہیں اور ان لوگوں نے رشتہ بھی طے کر دیا ہےاور  وہ اس لڑکے سے شادی نہیں کرنا چاہتی جس سے گھر والوں نے رشتہ طے کیا ہے، برائے مہربانی آپ ایسا کوئی وظیفہ بتائیں کہ وہاں سے رشتہ ختم ہوجائے اور اس لڑکے سے شادی ہوجائے، جسے وہ پسند کرتی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے ہر آزاد عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت کو اختیار دیا ہے کہ وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنے لیے رشتہ کا انتخاب کرے اور جہاں چاہے شادی کرے، لہٰذا والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کی شادی کرنے میں ان کی پسند اور ان کی خوشی کا بھی لحاظ رکھیں اور جہاں اولاد شادی کرنے کی خواہشمند ہے، اگر اس جگہ کو مناسب اور بہتر سمجھیں، تو  اس جگہ شادی کروادیں، تاہم اولاد کو بھی چاہیے کہ رشتہ کا انتخاب کرنے میں نیک اور صالح رشتہ کا انتخاب کریں اور اگر ان کا منتخب کردہ رشتہ کو والدین مناسب اور اولاد کے حق میں بہتر نہ سمجھیں تو اولاد کو اپنی رضامندی پر والدین کی رضامندی کو ترجیح دے کر زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی  والدین کا منتخب کردہ رشتہ صحیح نہیں ہے اور  لڑکی کسی نیک صالح لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے اور والدین اس جگہ رشتہ کرنے کو مناسب سمھیں، تو والدین کو چاہیے کہ لڑکی  خوشی کو مدِ نظر رکھتے ہوئےجہاں وہ چاہتی ہے، وہاں شادی کردیں، تاکہ بعد میں نا چاقیاں پیدا نہ ہوں

البتہ اپنے کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے اور اپنی کسی بھی جائز  حاجت کو پورا کرنے کےلیے شریعت نے نماز اور دعاؤں کی طرف رجو ع کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا  لڑکی کو چاہیےکہ اپنے مذکورہ مسئلہ کے لیے صلاۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرے اور استخارہ بھی کرے اور اللہ  سے خیر طلب کرے۔

قرآن كريم میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ." [البقرة:152]

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا إسماعيل بن عمر، وخلف بن الوليد، قالا: حدثنا يحيى بن زكريا يعني ابن أبي (3) زائدة، عن عكرمة بن عمار، عن محمد بن عبد الله الدؤلي قال: قال عبد العزيز أخو حذيفة، قال حذيفة:  كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ‌حزبه ‌أمر صلى."

(مسند احمد، ج:38، ص:330، ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وكل هؤلاء لهم ‌ولاية الإجبار على البنت والذكر في حال صغرهما وحال كبرهما إذا جنا، كذا في البحر الرائق."

(كتاب النكاح، ج:1، ص:283، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں