بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی کرنے اور والدین سےاپنی پسند کا اظہار کرنے کا حکم


سوال

 1۔کیا عورت اپنی پسند کی شادی کر سکتی ہے اور اپنی پسند کا اظہار والدین سے کر سکتی ہے؟

2۔اگر عورت غیر کفو میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو کیا ایسا نکاح منعقد ہو جائے گا؟آج کل اس میں مفتی بہ قول کیا ہے؟دلائل کے ساتھ جواب بیان فرما دیجیئے ۔

جواب

1۔واضح رہےکہ شریعتِ مطہرہ نےنکاح کےحوالےسےلڑکی کی پسند کا اعتبار کرکےاس کےولی کو بھی اس بات کا پابند بنایا ہوا ہےکہ وہ نکاح پر لڑکی کی پسند اور رضامندی  معلوم کرےاور اس کا نکاح بغیراس کی اجازت ورضامندی سےاس کی ناپسندیدہ جگہ پر نہ کیا جائے،چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌تنكح ‌الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن» . قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: «أن تسكت»(متفق عليه)

(كتاب النكاح، 937/2، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ علیہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أیم(یعنی بیوہ بالغہ)کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے،اسی طرح کنواری عورت(یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے،(یہ سن کر) صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ :یارسول اللہ اس (کنواری عورت) کی اجازت کیسے حاصل ہوگی(کیونکہ کنواری عورت تو بہت شرم وحیا کرتی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:اس طرح کہ وہ چپکی رہےیعنی کوئی کنواری عورت اپنے نکاح کی اجازت مانگے جانے پراگر بسببِ شرم وحیازبان سے ہاں نہ کرے بلکہ خاموش رہےتو اس کی یہ خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائےگی۔(از مظاہرِ حق)

چنانچہ  لڑکی کا اپنی پسند کی شادی کرنا درست ہے،شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے، نیز والدین سےاپنی پسند کااظہار کرنےمیں کوئی قباحت نہیں ہے،البتہ نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو  ایک دوسرے کی پسند کی رعایت رکھنی چاہیے، والدین اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں،  اس سلسلے میں والدین کی طرف سے بےجادباؤ، اعتراض اورناراضی کا اظہار کرنا درست نہیں، ہاں خاندانی کفاءت اور برابری نہ ہونے کی صورت میں والدین کو اعتراض اور ناراضی کا حق شریعت کی طرف سے حاصل ہے،اسی طرح اگر والدین اپنےتجربہ کےاعتبارسےلڑکی کو کوئی مشورہ دیں تو اس کی رعایت بھی رکھنی چاہیے،تاکہ دونوں فریق کےاتفاق سےیہ کام انجام پذیرہو۔

2۔واضح رہےکہ  عاقلہ بالغہ  لڑکی اگر اپنے والدین/ولی کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعًا ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،چاہےکفو کےساتھ ہو یا غیرکفو کےساتھ،  البتہ  ولی(والد/دادا وغیرہ) کی اجازت کے بغیر    غیر کفو میں نکاح کرنےکی صورت میں   لڑکی کے اولیاء کو  اس کی اولاد ہونے سے پہلے پہلے عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اگر نکاح کے بعد اس لڑکی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو پھر اولیاء کو فسخِ نکاح کا اختیار نہیں ہوتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي)، والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا".

 (کتاب النکاح، باب الولی، 55/3،  ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

 (کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247، ط: سعید )

البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:

"(لكن للولي الاعتراض في غير الكفء) ش: دفعا للعار عنه، هذا إذا لم تلد، فإن ولدت فلا حق للولي في الفسخ كذا، في " قاضي خان " و " الخلاصة".

(كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، 79/5،ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں