بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پسند کی شادی کر نے کا حکم


سوال

پسند کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کوئی نوکری نہیں،  اپنا گھر بھی نہیں ہے،  معاشی حالات بھی ٹھیک نہیں اور میں اس لڑکی کے علاوہ کسی اور سے شادی بھی نہیں کر نا چاہتا ۔ میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ بھی نہیں ۔رشتے کی بات کی مگر لڑکی نے انکار کردیا تھا ۔مہربانی فرما کر میری مشکل کا حل بتا دیں!

جواب

واضح  رہے کہ  بیوی کا مہر  ، نان ونفقہ   دینا  شوہر کے ذمہ لازم ہے  لہذاجو شخص بیوی کا نان ونفقہ  دینے کی استطاعت نہیں ہے   تو ایسے شخص کے بارے میں   نبی ﷺ نے فرمایا کہ   توہ روزہ رکھے،  اس لیے کہ روزہ  رکھنے  سے شہوت کم ہو تی   ہے  ، اور روزہ گناہوں سے بچانے میں  ڈھال کی ماند ہے  ۔

لہذا صورت مسئولہ میں پسند کی شادی کرنا جائز تو  ہے لیکن  سائل کو چاہیے کہ   شادی سے پہلے روزگار  کے حصول کے لیے کوشش کر ے   تاکہ بیوی  کو مہر اور  نان ونفقہ دینے کی طاقت رکھ سکے ، اس طرح سائل  رشتے کے سلسلے میں  اپنے  والدین   یاخاندان کے بڑوں کے ذریعے  مذکورہ لڑکی کے ہاں رشتہ بھیجے ، لیکن   پسند کی بنیاد اور معیار وہ ہونا چاہیے جو شرعًا مطلوب ہے یعنی  رشتے کے انتخاب میں مال، خوب صورتی، حسب ونسب، اور دینداری میں سےدین داری کو ترجیح دینا چاہیے۔

نیزمعاشی مشکلات کے حل  کے لیے سائل  اس دعاء کو  رَبِّ إِنِّي لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْر (سورۃ القصص : 24)کو کثرت سے پڑھے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

(فَٱنكِحُوْا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ )(سورۃ النساء:4)

مشکوۃ شریف  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك."

(کتاب النکاح ، الفصل الاول،ص:267،ط:قدیمی کراچی)

مشکوۃ شریف میں ہے :

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌يا ‌معشر ‌الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء»".

(کتاب النکاح،927/2،المكتب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات،ج: 3 ص: 572 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."

(  كتاب الطلاق، الباب التاسع عشر فی النفقات، ج:1 ص:544 ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں