ہمارے پڑوس پشاور میں کالاش قبیلہ کے لوگ رہتے ہیں، ہم عام مسلمان پڑوسیوں کی طرح ان کے ہاں کچھ بھیجتے رہتے ہیں ،جواب میں وہ بھی برتن میں عام روٹین کی طرح دے دیتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا ان کی طرف سے گوشت وغیرہ جو وہ عام بازار سے خریدتے ہیں ہم کھا سکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ان کے ہاں چلا جائے تو کیا ان کے گھر چائے شربت پی سکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ان کے قبیلہ چترال جائے تو کیا وہاں ان کے ہاں کھانا گوشت اور شربت وغیرہ پینا کیسا ہے ؟
واضح رہے کہ قرابت دار، محلہ دار یا پڑوسی ہونے کے ناطے کوئی بھی انسا ن اکرام کرے تو اس کا اکرام قبول کرنا شرعًا جائز ہے، بلکہ کوئی عذر مانع نہ ہو تو اکرام قبول کرنا مستحب ہے، البتہ غیر مسلموں یا باطل فرقوں کی مذہبی تقریبات اور مجالس میں شرکت جائز نہیں ہے۔
لہذا صورت ِمسئولہ میں اگر سائل کے پڑوسی (کیلاشی قبیلے والے ) کھانے کی کوئی چیز بھیج دیں تو اس کا کھانا جائز ہے،بشرطیکہ اس میں کوئی حرام چیز نہ ملی ہوئی ہو،اوربرتن بھی پاک ہو،اسی طرح اگر کسی کا اتفاقاً ان کے قبیلے یاگھر جانا ہو تو اگر ان کی کھانے پینے کی اشیاء پاک ہیں، کوئی حرام چیز ملی ہوئی نہیں ہیں تو ان کا کھانا کھانایاچائے وغیرہ پینا جائز ہے، باقی ان کے ساتھ قلبی ،دلی دوستی اور تعلقات رکھنے سے اجتناب کریں، اسلامی اخلاق سے ان کو متاثر کریں؛ تاکہ اسلام قبول کرلیں۔
شعب الایمان میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الجيران ثلاثة: فمنهم من له ثلاثة حقوق، ومنهم من له حقان، ومنهم من له حق، فأما الذي له ثلاثة حقوق فالجار المسلم القريب له حق الجار ، وحق الإسلام، وحق القرابة، وأما الذي له حقان فالجار المسلم له حق الجوار، وحق الإسلام، وأما الذي له حق واحد فالجار الكافر له حق الجوار "
(اکرام الجار،84/7،ط،دار الکتب العلمیۃ)
"ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔"
تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101575
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن