بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو پرورش کا حق کب تک ہوتاہے ؟


سوال

 میں اپنی بیوی کوتین سال پہلے طلاق دے چکاہوں ، اس نکاح سے میرے تین بچے ہیں ، بڑی بیٹی چودہ سال ،ایک بیٹاگیارہ سال، اوردوسرابیٹاسات سال کاہے، بچے ان کی والدہ کے پاس ہیں ،میں نے اپنے بچوں کی سوشل میڈیاپرگانوں پرڈانس کرنے کی وڈیودیکھی ہے جس سے اندازہ ہوتاہےان کی تربیت صحیح نہیں ہورہی ، لہذامیں اپنے بچوں کواپنی پرورش میں لیناچاہتاہوں ، شریعت کی روسے حضانت کے حوالےسے رہنمائی فرمائیں ، اورمیں دوسری شادی بھی کرچکاہوں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے بچوں کی تربیت ماں اورباپ  دونوں کی(اپنے اپنے دائرہ کارمیں ) ذمہ داری بنتی ہے ،تاہم ابتدائی چندسالوں میں شریعت نے پرورش ماں کے ذمہ لگائی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اس جیسی تربیت نہیں کرسکتا، اورپرورش سے متعلق یہ تفصیل ہے کہ لڑکاسات سال کی عمرتک اورلڑکی نوسال کی عمرتک ماں کی پرورش میں رہے گی۔ لیکن اگرعورت بچے کے کسی غیرمحرم سے نکاح کرلے یاان کی پرورش میں رہ کرتربیت میں کمی آنے کاقوی اندیشہ ہوتواس سے یہ حق ساقط ہوجاتاہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں چونکہ لڑکی کی عمر نوسال اورلڑکوں  کی عمریں سات ہوچکی ہے اس لیے بچوں کی والدہ سے حضانت (پرورش ) کاحق ختم ہوگیاہے،سائل کویہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کو اپنی تحویل میں لےکران تعلیم اورتربیت کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد  رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين ... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا."

(الفتاوی الهندية کتاب الطلاق الباب السادس عشرفی الحضانة ۱/ ۵۴۱ ط : رشيديه)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" الباب السادس عشر في الحضانةأحق الناس بحضانة الصغيرحال قيام النكاحأو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة.........وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ، وإن علت ، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها ، وإن علت كذا في فتح القدير ."

(الفتاوی الھندیۃ کتاب الطلاق الباب السادس عشرفی الحضانۃ ۱/ ۵۴۱ ط : رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں